Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: کرکٹ کا مذہب

ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان نے انڈیا کو 10 وکٹوں سے شکست دی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
یہ تو شاید آپ نے سنا ہی ہوگا کہ کھیلوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ لیکن کھیلنے والوں کا تو ہوتا ہے۔
اس لیے ٹی 20 کے عالمی کپ میں پاکستان کے ہاتھوں انڈیا کی شکست کا سہرا ایک فاسٹ بولر کے سر باندھا جا رہا ہے۔ نہیں یہ شاہین شاہ آفریدی کا ذکر نہیں ہے، حالانکہ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آفریدی نے پہلے دو اوورز میں ہی کافی حد تک کھیل کی سمت طے کر دی تھی۔ ان میں انڈیا کے کپتان وراٹ کوہلی بھی شامل ہیں، لیکن انہیں کرکٹ کی کیا سمجھ جو ان کی رائے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
سوشل میڈیا پر اس کرکٹر کو غدار کہا جا رہا ہے اور کچھ لوگ انہیں وہاں جانے کا مشورہ دے رہے ہیں جہاں۔۔۔ خیر آپ کو معلوم ہی ہے، باریکیوں میں جانے سے کیا فائدہ۔
اچھی خبر یہ ہے کہ سچن تیندولکر جیسے کچھ سابق کھلاڑیوں نےاس کرکٹر کے ساتھ اظہار یکجہتی میں بیان دیے ہیں۔ بری خبر یہ ہے کہ کرکٹ کے ایک گیم میں ایک خراب اوور کے بعد اس طرح کا بیان دینے کی ضرورت پڑی۔
انڈیا پاکستان کے میچ میں شائقین ذرا زیادہ ہی جذباتی ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ نفرتیں پھیلانے کا بہانہ تلاش کرتے ہیں اور انہیں روکنا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور ہر کسی کے پاس اپنی رائے، وہ جتنی ناقص بھی ہو، ظاہر کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم موجوو ہے۔
اس لیے نفرتیں پھیلانے کا جنہیں شوق ہے انہیں پھیلانے دیجیے۔
لیکن جو لوگ ذمہ دار عہدوں پر فائز ہیں، ان کا کیا کریں؟ انہیں کون سمجھائے کہ جس طرح کسی ٹیم گیم میں کسی ایک کھلاڑی کو ہار جیت کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، اسی طرح ایک میچ میں فتح کا عالم اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور یہ کہ ٹورنامنٹ کا پہلا میچ فائنل نہیں ہوتا۔

انڈین ٹیم کے فینز نے بولر محمد شامی پرغداری کا الزام عائد کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اگر آپ کو سپورٹس کی ذرا بھی سمجھ ہوتی تو آپ یہ کہتے کہ یہ زبردست شروعات تھی، اس کا جشن ضرور منائیں لیکن مقابلہ ختم نہیں ابھی شروع ہوا ہے۔۔۔اس مومینٹم کو قائم رکھیں۔۔۔ آپکی نگاہیں ٹرافی پر ہونی چاہییں۔
بہرحال، بہت سے لوگوں نے بہت سی باتیں کہیں ہیں۔ ان میں سب سے اچھی بات کرکٹ کے کمینٹیٹر ہرشا بھوگلے نے کہی۔ ہندی میں ٹویٹ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ جو لوگ محمد شامی کے بارے میں گھٹیا باتیں کر رہے ہیں ان سے میری ایک ہی ونتی(درخواست ) ہے۔ آپ کرکٹ نہ دیکھیں اور آپ کی کمی محسوس بھی نہیں ہوگی۔
میچ کے بعد کوہلی اور رضوان کا فوٹو بھی آپ نے دیکھا ہی ہوگا۔ اس تصویر میں ایک پیغام ہے اور وہ یہ کہ پلیئرز ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں، وہ میچ جیتنے کے لیے جان لڑا دیتے ہیں لیکن ٹیمیں کوئی لشکر نہیں ہیں۔۔۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے۔
اچھا کھلیں تو تعریف کیجیے، برا کھیلیں تو مشورہ دیجیے، لیکن اگر ممکن ہو تو سیاست، مذہب اور نفرت کو کھیل سے الگ ہی رکھیے۔ ورنہ کھیل کا مزا خراب ہو جاتا ہے۔
جن لوگوں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان 2003 میں کھیلی گئی فرینڈ شپ سیریز دیکھی تھی، انہیں یاد ہوگا کہ کراچی کا پہلا میچ پاکستان کی ٹیم ہار گئی تھی لیکن اس کے باوجود پورے سٹیڈیم نے کھڑے ہو کر انڈین ٹیم کو داد دی تھی۔

انڈیا نے پاکستان کو 152 رنز کا ہدف دیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اسی سیریز کا ایک میچ جب پشاور میں کھیلا گیا تو جشن کا غیرمعمولی ماحول تھا، چاروں طرف انڈیا اور پاکستان کے جھنڈے لہرا رہے تھے، آجکل کے ماحول میں یقین کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن بہت سے شائقین کے ایک گال پر انڈیا کے رنگ تھے اور دوسرے پر پاکستان کے۔
اسی سیریز کے بارے میں انڈیا کے سابق فاسٹ بالر آشیش نہرا نے ڈیڑھ دو سال پہلے کرکٹ کی ایک ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا کی ٹیم لمبے عرصے کے بعد پاکستان کا دورہ کر رہی تھی۔ یہ غیرمعمولی سیریز تھی جسے میں بھلا نہیں سکتا۔ چاہے لاہور ہو یا راولپنڈی، ہمیں ہر جگہ ہندوستان کے جھنڈے نظر آتے۔۔۔ میرا سب پاکستانی کھلاڑیوں سے اچھا تعلق تھا لیکن کچھ سے ملنے میں زیادہ مزا آتا تھا، جیسے ارشد خان، شاہدی آفریدی اور شعیب ملک۔
پاکستان کے سابق فاسٹ بالر سہیل تنویر نے کہا کہ کرکٹ ایک کھیل ہے جو لطف کے لیے کھیلا جاتا ہے۔ ظاہر ہے سرحد کے دونوں طرف شائقین چاہتے ہیں کہ ان کی ٹیم جیتے۔ لیکن صرف ایک ہی ٹیم جیت سکتی ہے۔
’میری خود تو کبھی کسی ہندوستانی کھلاڑی سے نوک جھونک نہیں ہوئی لیکن کھیل کے دوران میدان پر ایسا ہو جاتا ہے لیکن بات میدان پر ہی ختم بھی ہوجاتی ہے۔۔۔ جب ہم 2007 میں انڈیا کا ٹور کر رہے تھے، تو مجھے یاد ہے کہ ہم رات کا کھانا ساتھ ہی کھاتے تھے۔۔۔ جب ہم ساتھ ہوتے تو خوب مزے کرتے تھے۔‘

سوشل میڈیا پر انڈین کھلاڑیوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دیے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

آپ کسی بھی پلیئر سے بات کریں گے تو آپ کو ملتی جلتی کہانیاں ہی سننے کو ملیں گی۔ اس لیے اگلی مرتبہ آپ کا جوش زور مارے تو یاد رکھیے گا کہ کرکٹ ایک کھیل ہے، اس میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، اگر آپ سے برداشت نہیں ہوتا تو آپ اپنی سیاست کے لیے کرکٹ کو استعمال کرتے رہیے لیکن اس میں مذہب مت ڈھونڈیے۔
کیونکہ کرکٹ کا کوئی مذہب نہیں ہے۔

شیئر: