Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی ٹیم ویسٹ انڈیز سے ون ڈے سیریز کیوں ہاری؟ عامر خاکوانی کا تجزیہ

اردو کے منفرد شاعر قابل اجمیری کا ایک مشہور شعر ہے 
 وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا  
 پاکستان کرکٹ ٹیم پر یہ شعر صادق آتا ہے۔ 
آج پاکستانی ٹیم کی جو حالت ہے اور اپنے سے رینکنگ میں چھ نمبر نیچے کی یعنی نمبر 10 پر موجود ٹیم ویسٹ انڈیز سے جس طرح ون ڈے سیریز ہاری ہے، اس کا ذمہ دار گذشتہ چند ماہ یا ایک دو سال کی بورڈ یا کرکٹ مینجمنٹ کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔
تاہم اس سے پاکستانی شائقین کی مایوسی یا تکلیف کم نہیں ہو سکتی۔ ذمہ دار چاہے کوئی بھی ہو، بدترین شکست تو پاکستان ہی کو ہوئی۔ 
 مختصر تجزیہ کیا جائے تو ہم سیریز اس لیے ہارے کہ 
 ٹیم کا کمبینیشن اچھا نہیں تھا، اَن بیلنس ٹیم کھیلی۔
 ہمارے مین کھلاڑی بچگانہ غلطیاں کر کے آؤٹ ہوئے۔
 ہماری ٹیم کے پاس مخالف ٹیم کے لیے کاؤنٹر پلان ہی نہیں تھا۔
 ٹیم سلیکشن ناقص تھی، غیر ضروری تبدیلیاں ہوتی رہیں۔  
پاکستانی کپتان نے میچ کے اہم لمحات میں سنگین غلطیاں کیں۔
ان پوائنٹس پر نسبتاً تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ 
پاکستانی ٹیم کا خاصے عرصے سے ون ڈے میچز میں اچھا کمبینیشن نہیں بن پا رہا۔ وہ اس لیے کہ ون ڈے میں کم سے کم پانچ سپیشلسٹ بولرز کی ضرورت پڑتی ہے۔ پارٹ ٹائم بولرز پر انحصار خطرناک ہوتا ہے کیونکہ 10 اوورز کرانے ہیں اور پارٹ ٹائمر اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔
دوسری طرف پانچ باولرز کھیلنے کا مطلب ہے کہ صرف چھ بلے باز کھیل سکیں گے، ان میں ظاہر ہے ایک وکٹ کیپر ہوگا۔ 
 اب مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ ہماری بیٹنگ بھی اوسط درجے کی ہے، اس لیے ہم صرف چھ بلے بازوں اور اتنی لمبی کمزور ٹیل کے ساتھ میچ میں نہیں جا سکتے، تو نمبر سات، آٹھ کے لیے ایسے بولرز کا انتخاب کیا جاتا ہے جو کچھ نہ کچھ بیٹنگ کر سکتے ہوں۔ 
اس سے بیٹنگ کو تو تھوڑا بہت سہارا مل جاتا ہے، مگر بولنگ کمزور ہو جاتی ہے۔ پاکستانی ون ڈے ٹیم کے پاس پانچ اچھے سپیشلسٹ بولرز ہی نہیں ہوتے۔نتیجہ پھر ظاہر ہے۔ 
ہم بہت سے میچ اسی وجہ سے ہار رہے ہیں کہ پانچویں بولر کے اوورز ہم پارٹ ٹائمر سپنرز (صائم ایوب، سلمان آغا، خوش دل شاہ) وغیرہ سے کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اچھی مخالف ٹیمیں اس کمزور کڑی کا فائدہ اٹھا کر ہمارے خلاف بڑا سکور کر دیتی ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف دوسرا ون ڈے ہم صرف اسی وجہ سے ہارے۔ پارٹ ٹائم سپنرز پِٹ گئے اور ویسٹ انڈیز ہارا ہوا میچ جیت گیا۔ 
 دراصل ہم طویل عرصے سے اچھا جینوئن آل راؤنڈر تلاش ہی نہیں کر پائے۔  عبدالرزاق کے بعد ہمارے پاس حقیقی آل راؤنڈر ہی نہیں آیا۔ ہم ٹُوٹے پُھوٹے نام نہاد آل راؤنڈر کھلاتے ہیں۔ 
ایک حقیقی آل راؤنڈر وہ ہے جو بیٹنگ اور بولنگ دونوں اچھی کر سکتا ہے اور دونوں شعبوں میں وہ اپنے طور پر ٹیم میں سلیکٹ ہو سکے۔ جسے بطور بلے باز بھی کھلایا جا سکے اور بطور بولر بھی۔ 
جنوبی افریقی جیک کیلس تو عظیم آل راؤنڈر تھے۔ آسٹریلیا کے میکسویل، انڈیا کے رویندر جدیجہ، ہاردک پانڈیا اور اکشر پٹیل، بنگلہ دیش کے شکیب الحسن، انگلینڈ کے بین سٹوکس، نیوزی لینڈ کے رویندرا وغیرہ اچھی مثالیں ہیں۔ 
یہ سب اپنی بولنگ یا بیٹنگ دونوں کے بل بوتے پر ٹیم میں کھیل کر میچ جتوا سکتے ہیں۔ پاکستان گذشتہ پانچ سات برسوں میں کوئی اچھا آل راؤنڈر تیار کیوں نہیں کر سکا؟ یہ بات ہمارے بورڈ اور کرکٹ ٹیم کی مینجمنٹ سے پوچھنی چاہیے۔ 
ہمارے پاس آخری آل راؤنڈر شاداب خان تھا، جب تک اس کی بولنگ میں دم تھا، پرفارمنس اچھی تھی، انجریز نہیں ہوئیں، شاداب نے پاکستان کو میچز جتوائے۔ پچھلے ڈیڑھ دو برسوں میں شاداب خان ڈاؤن ہوا تو ہم نے کبھی خوش دل شاہ، کبھی رانا فہیم اشرف، کبھی کسی اور کو کھلایا۔
اس بار حسین طلعت کو موقع دیا گیا۔ کبھی ہم نے محمد نواز کو بھی آل راؤنڈر سمجھ لیا تھا۔ ویسے تو شاہین آفریدی بھی خود کو شاید آل راؤنڈر سمجھتے ہیں، اسی لیے لاہور قلندرز میں وہ نمبر پانچ چھ پر بیٹنگ کرنے دوڑے آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی جینوئن آل راؤنڈر نہیں۔ 
صائم ایوب، سلمان آغا پارٹ ٹائم سپنرز ہیں، مگر یہ ون ڈے میں قابل اعتماد پانچویں بولر نہیں بن سکتے۔ بیٹنگ پچز پر مخالف بلے باز انہیں اُڑا کر رکھ دیں گے۔ ہمیں جینوئن آل راؤنڈرز تیار کرنا ہوں گے، یہ کام ابھی شروع کر دیں تو سال دو میں کچھ ہو جائے گا، ورنہ ہر بار ہم ماتم ہی کرتے رہیں گے۔ 
 منگل کے روز کھیلے گئے میچ کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ پاکستانی ٹیم کی نئی مینجمنٹ یقینی طو رپر تجربہ کار اور اہل ہوگی، مگر اس سیریز میں انہوں نے ہوم ورک سرے سے نہیں کیا۔ 
انہوں نے ویسٹ انڈین بولرز پر کام ہی نہیں کیا۔ صرف ایک ہی نوجوان فاسٹ بولر جیڈن سیلز نے پاکستانی بیٹنگ کو اُدھیڑ کر رکھ دیا۔ 
ہمارے بابر اعظم اور رضوان جیسے تجربہ کار سپرسٹارز بھی اس کے سامنے بے بس نظر آئے اور صائم ایوب جسے ہم اپنا مستقبل قرار دیتے ہیں وہ بھی تینوں میچز میں اسی سیلز کے ہاتھوں آؤٹ ہوا۔ صائم  ِسٹنگ ڈک ہی ثابت ہوا۔ ہر بار وہ آف سٹمپ سے باہر جاتی گیندوں کو کھیلنے کے چکر میں وکٹ گنوا بیٹھا۔ 
سیلز نے تین ون ڈے میچز میں 10 وکٹیں حاصل کیں۔ یہ ٹیم مینجمنٹ کا کام تھا کہ سیلز کی بولنگ کا تجزیہ کرتے اور پھر پاکستانی ٹاپ آرڈر کو خاص طور سے تیار کراتے۔ 
سیلز کا قد لمبا ہے اور وہ گیند کو تیزی سے اندر لاتا ہے۔ دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے بلے بازوں کو وہ اسی طریقے سے آؤٹ کرتا ہے۔ بابر اعظم جیسا تجربہ کار اور مشہور بلے باز دوسرے اور تیسرے ون ڈے میں سیلز کا اسی طرح شکار بنا۔ ایک بار بابر بولڈ ہوا،
دوسری بار ایل بی ڈبلیو۔ بابر کی ویسے ہی کمزوری بن چکی ہے کہ فاسٹ بولرز کی اِن سوئنگر یا اِن کٹر گیندوں پر وہ اکثر ایل بی ڈبلیو یا بولڈ ہو رہا ہے۔ یہ بیٹنگ کوچ کی ذمہ داری ہے کہ پریکٹس کے طویل سیشن کرا کر بابر کی یہ کمزوری دُور کرائے۔ 
ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری ون ڈے میچ میں محمد رضوان نے کمال کیا کہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ جیڈن سیلز کی گیند اندر آتی ہے۔ رضوان نے کمال معصومیت اور بے نیازی سے اُس کی پہلی ہی گیند کو ویل لیفٹ کر دیا اور بولڈ ہوگیا۔ 
بولڈ ہونے کے بعد حیرت سے وہ دیکھ رہا تھا۔ بھئی حیرت تو آپ کی عقل پر ہے کہ ایسی گیند کھیلنے کے بجائے چھوڑ کیوں دی؟جب ٹاپ آرڈر یوں بُری طرح ناکام ہو تو پھر بڑا ہدف حاصل کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ وہی ہوا۔ 
مجھے ایک اور مسئلہ یہ بھی لگ رہا ہے کہ ٹی20 میچز زیادہ ہو رہے ہیں اور جو کھلاڑی جیسے بابر، رضوان، عبداللہ شفیق وغیرہ ٹی20 ٹیم میں نہیں صرف ون ڈے یا ٹیسٹ کھیل رہے ہیں تو وہ اس دوران فراغت والے وقفے میں اپنی فارم برقرار نہیں رکھ پا رہے۔ 
عبداللہ شفیق شاید اسی لیے آف کلر نظر آئے۔ بابر نے ایک میچ میں 47 رنز بنائے اور پھر دو میں بُری طرح ناکام ہوا۔ یہ صرف بُری فارم نہیں بلکہ تکنیک کی کمزوری بھی ہے جیسا کہ اوپر ڈسکس کیا۔ 
بابر کو اپنے اوپر کام کرنا ہوگا، ورنہ وہ ون ڈے سے بھی باہر ہو جائے گا۔ ویسے اگر کوئی ون ڈے سیریز ٹی20 کے ساتھ شیڈول ہو گئی  تو اس میں اِن فارم ٹی20 بلے بازوں کو شامل کر دینا چاہیے۔
جیسے صاحبزادہ فرحان نے ٹی ٹوئنٹی میں بہت عمدہ بیٹنگ کی، کئی چھکے لگا کر بڑی اننگز کھیلی اور پلیئر آف دی میچ بنا۔ فرحان کو عبداللہ شفیق کی جگہ کھلانا چاہیے تھا۔ فرحان اور صائم کی اچھی جوڑی ہے جسے ٹی20 کے ساتھ ون ڈے میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ 
تیسرا بڑا مسئلہ ہماری بولنگ کا بھی ہے۔ ہمارے مین فاسٹ بولرز میں شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور حارث رؤف شامل ہیں۔
ان میں شاہین شاہ اور نسیم شاہ خاص طور پر ڈیتھ اوورز میں اچانک بہت زیادہ رنز دے دیتے ہیں۔ ایک اوور میں دو تین چھکے کھانا تو اب روٹین بن گئی ہے۔ اگر پاکستان کے مین فاسٹ بولرز آخری پانچ اوورز میں پچاس ساٹھ رنز دے دیں گے تو میچ کس طرح جیتا جا سکتا ہے؟
تیسرے ون ڈے میچ میں پاکستان نے آخری سات اوورز میں 100 رنز دیے۔ دنیا کی کوئی بھی ٹیم اتنی کمزور بولنگ کارکردگی کے بعد کیسے جیت سکتی ہے؟
میچ صرف تب ہی بن سکتا ہے جب جوابی طور پر ویسی ہی دُھواں دھار بیٹنگ کی جائے۔ ہمارے بے چارے بلے بازوں سے اتنی امید یا توقع رکھنا باقاعدہ ظلم بلکہ انسانی حقوق کا مسئلہ بن جائے گا۔ 
پاکستان کے پاس ایک زمانے میں ڈیتھ اوورز کے بہترین بولرز تھے، اب بہت بُرا حال ہے۔ ون ڈے میں اب امید جاگی ہے کیونکہ آخری پندرہ اوورز میں نئی کے بجائے استعمال شدہ گیند ہو گی تو وہ ریورس سوئنگ ہوسکتی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کی تدبیر کرنی چاہیے۔ 
تیسرے ون ڈے میچ میں کپتان رضوان نے کئی سنگین غلطیاں بھی کیں۔ جب سپنر ابرار اتنی عمدہ بولنگ کرا رہا تھا تو اسے ہٹانے کے بجائے اس سے مزید اوورز کرا کر دباؤ بڑھانا چاہیے تھا۔ 
رضوان نے نجانے کیوں نواز اور ابرار کے اوورز روک کر ان  سے آخری 10 اوورز میں بولنگ کروائی، انہیں چھکے پڑ گئے اور خواہ مخواہ نقصان ہوا۔ پُرانی گیند سے ریورس سوئنگ ہو رہی ہو تو فاسٹ بولرز آنے چاہییں نہ کہ سپنرز۔ 
ایک اور غلطی سلیکشن میں تسلسل کی کمی ہے۔ سفیان مقیم بہت اچھا مسٹری سپنر ہے اور اس نے مسلسل عمدہ کارکردگی پیش کی ہے۔ 
اس نے جنوبی افریقہ میں پچھلے سال ون ڈے جتوایا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلا ون ڈے اسے کھلایا تو اس کی بولنگ مناسب رہی۔ اسے نجانے کیوں دوسرا اور تیسرا ون ڈے کھلایا ہی نہیں گیا۔
سفیان مقیم اور ابرار پاکستان کے دو بہترین اور مسٹری سپنرز ہیں۔ ایک رائیٹ آرم تو دوسرا کھبا سپنر ہے، یوں کمبی نیشن اعلٰی بن جاتا ہے۔ ان دونوں کو اکٹھا کھلانا چاہیے۔
نواز نے ٹی20 میں وکٹیں حاصل کیں مگر اس کی بولنگ اب اوسط درجے کی ہے، وہ کوالٹی بیٹنگ کے سامنے بڑا ڈینٹ نہیں ڈال سکتا۔ ابرار اور سفیان مقیم کو کھلاتے رہیں، اعتماد دیں تو یہ دونوں میچ ونر سپنرز ہیں۔ 
 یہ بھی سمجھ سے باہر ہے کہ کل تین میچز تھے، ان میں اتنی زیادہ روٹیشن کیوں؟ ایک میں نسیم شاہ اور شاہین آفریدی کو کھلایا گیا، دوسرے میں حسن علی اور شاہین، تیسرے میں نسیم شاہ اور حسن علی۔ آخر کیوں؟ اگر کوئی بولر تین ون ڈے میچز کی سیریز بھی نہیں کھیل سکتا تو پھر اس کی فٹنس کا مسئلہ ہے، اسے ٹیم میں شامل ہی نہ کریں۔ 
 بدقسمتی سے پاکستانی ٹیم کے کئی مسائل ہیں، پُرانی بیماریوں کی طرح بعض مسئلے مہلک اور سنگین ہو چکے ہیں۔ کئی برسوں سے یہ خرابیاں چل رہی ہیں۔ اب یہ ہوا کہ بیمار جسم کی طرح بیمار ٹیم میں بھی جان نہیں رہی اور وہ گِر جاتی ہے۔
ان خرابیوں کو دُور کریں۔ شارٹ ٹرم کے ساتھ لانگ ٹرم پلان بنائیں۔ ٹیم سلیکشن بہتر کریں اور کپتان اگر بلنڈر کرے تو ڈریسنگ روم سے اُس کی رہنمائی ہونی چاہیے۔ ورنہ ہم ایک کے بعد شکست کے سانحوں سے دوچار ہوتے رہیں گے۔
 ستمبر میں ایشیا کپ ہے۔ وہاں کم سے کم دو میچز انڈیا کی بہترین اور اِن فارم ٹیم کے ساتھ ہیں جبکہ ایشیا کپ میں ہمیشہ اچھا کھیلنے والی سری لنکن ٹیم اور افغانستان کی خطرناک ٹیم کے ساتھ بھی ممکنہ طور پر میچز کھیلنا پڑیں گے۔
پاکستانی شائقین کی ابھی سے یہ سوچ کر سانس بند ہو رہی ہے کہ نجانے ایشیا کپ میں ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟
 

شیئر: