Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹی ایل پی کا لانگ مارچ: 13 روز میں کب کب کیا ہوا؟

پاکستان کی سیاسی اور مذہبی کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے مابین ایک نئے معاہدے کے ذریعے معاملات طے پا گئے ہیں۔
فرانسیسی سفیر کی ملک بدری، تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی، تنظیم پر پابندی کا خاتمہ اور رہنماؤں کے نام خطرناک افراد کی فہرست سے نکالنے کے مطالبات لیے ٹی ایل پی نے 12 ربیع الاول کے جلوس کے بعد 19 اکتوبر بروز منگل شام پانچ بجے لاہور میں سکیم موڑ پر واقع تنظیمی مرکز کے باہر دھرنا دیا۔ 
آج اتوار کو ہی کچھ دیر قبل ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہونے کی خبریں سامنے آئیں اور سابق چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی میب الرحمان، جو حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کا حصہ تھے، اعلان کیا کہ معاہدہ ہوگیا ہے۔
19 اکتوبر بروز منگل شام پانچ بجے لاہور میں سکیم موڑ پر واقع تنظیمی مرکز کے باہر دھرنا دیا۔  
دھرنے کے اعلان نے ضلعی انتظامیہ کو چونکا دیا ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت دھرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔
دھرنے کی سربراہی ٹی ایل پی کی تیسرے درجے کی قیادت کر رہی تھی۔ اگلے روز بدھ 20 اکتوبر کو حکومت نے دھرنے کے ارد گرد انٹرنیٹ کی سروس معطل کر دی۔ اسی روز ہی ٹی ایل پی نے اپنے مطالبات پورے کرنے کے لیے حکومت کو دو روز کا وقت دیا کہ اگر 22 اکتوبر تک مطالبات پورے نہ ہوئے تو اسلام آباد کی طرف مارچ ہوگا۔  
حکومت نے 21 اکتوبر کو اورنج لائن ٹرین سووس بھی معطل کردی جب کہ لانگ مارچ کو روکنے کی منصوبہ بندی بھی ساتھ ساتھ ہونے لگی۔
22 اکتوبر کو نمازِ جمعہ کے بعد ٹی ایل پی کا مارچ شروع ہوا تو پولیس کی ایک بھاری نفری جلوس کے راستے پر تعینات کر دی گئی۔ جبکہ ٹی ایل پی کے روٹ پر کنٹینرز کھڑے کر دیے گئے۔

انتظامیہ کی جانب مارچ کے راستے میں کنٹینر لگائے گئے جبکہ ٹی ایل پی کے کارکنوں اور پولیس میں پہلا تصادم ایم اے او کالج کے باہر ہوا (فوٹو: اے ایف پی)

ٹی ایل پی اور پولیس میں پہلا تصادم ایم اے او کالج کے باہر ہوا جس میں دو پولیس اہلکاروں کی موت ہوئی جب کہ ٹی ایل پی نے بھی اپنے چار کارکنوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔ کئی گھنٹے جاری رہنے والے اس تصادم کے بعد بالآخر پولیس کو پیچھے ہٹنا پڑا اور مارچ کے شرکا نے رات آزادی چوک میں گزاری۔  
اس دوران حکومت نے جی ٹی روڈ پر بھی انٹرنیٹ سروس معطل کر دی۔  
23 اکتوبر کو لاہور سے نکلتے ہوئے پولیس اور ٹی ایل پی کے درمیان ایک اور تصادم کالاشاہ کاکو کے علاقے میں ہوا اور مارچ رکاوٹیں عبور کرتا ہوا مریدکے پہنچ گیا۔
اس دوران جی ٹی روڈ پر انٹرنیٹ سروس کے ساتھ ساتھ ٹریفک کے لیے مکمل طور پر بند رہا۔ مریدکے پہنچنے کے بعد حکومت ایک دفعہ پھر متحرک ہوئی اور مذاکرات کے ذریعے معاملہ سلجھانے کا اعلان کیا گیا۔ مارچ کے شرکا نے مریدکے میں ہی دھرنہ دے دیا اور چار روز تک یہ دھرنا جاری رہا۔ اس دوران وزیرداخلہ شیخ رشید بھی لاہور پہنچے اور جیل میں بند سعد رضوی سے مذاکرات کیے۔  
27 اکتوبر کو ٹی ایل پی نے ایک دفعہ پھر مریدکے سے آگے اسلام آباد کی طرف مارچ کا آغاذ کردیا۔ سادھوکی کے قریب پولیس نے ایک دفعہ پھر جلوس کی پیش قدمی روکنے کی کوشش کی تاہم اس میں کامیابی نہیں ہوئی البتہ دونوں طرف سے ہلاکتوں اور زخمیوں کے دعوے کیے جاتے رہے۔
28 اکتوبر کو ٹی ایل پی کا قافلہ گوجرانوالہ پہنچا تو پولیس کو ہٹا لیا گیا اور مارچ کو روکنے کی ذمہ داری رینجرز کو سونپ دی گئی۔  

پولیس اور ٹی ایل پی کے درمیان دوسرا تصادم کالا شاہ کاکو میں ہوا اور مظاہرین رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے مریدکے پہنچ گئے (فوٹو: اے ایف پی)

29 اکتوبر کو ٹی ایل پی کا مارچ وزیرآباد پہنچ گیا جہاں ان کا دھرنا اتوار 31 تاریخ تک جاری رہا۔ اور پھر وفاقی حکومت کی جانب سے معاہدے کا اعلان کیا گیا۔ 

کیا کھویا کیا پایا؟ 

13 روز پر محیط مارچ اور دھرنوں نے وسطی اور اپر پنجاب میں نظام زندگی کو تقریباً مفلوج رکھا۔ تین روز تک صوبائی دارالحکومت لاہور زیر عتاب رہا تو اگلے 10 دن جی ٹی روڈ عام شہریوں کے لئے نو گو ایریا بنا رہا۔
اس میں لوگوں کو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔ ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایک تخمینے کے مطابق صرف لاہور میں تین دن کے دھرنے سے تقریباً چار ارب روپے کا معیشت کو نقصان پہنچا۔ انٹرنیٹ سروس کی معطلی سے ای کامرس کا نقصان اس سے الگ ہے جبکہ چار پولیس اہلکار اپنی جان سے گئے اور اڑھائی سو کے قریب اس وقت بھی ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔‘ 

مارچ کے شرکا نے مریدکے میں چار روز تک دھرنا دیے رکھا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ٹی ایل پی کے کارکنوں نے سرکاری اور غیر سرکاری 360 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا جبکہ اس دوران ٹی ایل پی کے کارکنوں پر 620 ایف آئی آرز درج کی گئیں۔  
حسان خاور کے مطابق ’ان 13 دنوں میں سبزی منڈیوں کی رسد کا نظام بری طرح متاثر رہا۔ لاہور اور راولپنڈی کے درمیان سینکڑوں مال بردار ٹرک اور کنٹینر پھنسے رہے۔‘ 
دوسری طرف ٹی ایل پی کا دعوی ہے کہ ان کے درجنوں کارکن زخمی اور کئی ہلاک بھی ہوئے۔  

شیئر: