Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عراقی پارلیمنٹ میں پہلی مرتبہ نئی نسل داخل ہو رہی ہے

بڑی سیاسی جماعتوں کے تسلط  کے باعث ووٹنگ میں کمی دیکھی گئی۔ (فوٹو ٹوئٹر)
عرا قی پارلیمنٹ میں نمائندگان کی ایک نئی نسل پہلی بار داخل ہو رہی ہے، ان نمائندوں  نے سیاست کو طویل عرصے سے داغدار کرنے والی کرپشن سے تنگ آنے والی سول سوسائٹی کی تحریک سےاپنی سیاست کا  آغاز کیا۔
اے ایف پی نیوز ایجنسی کے مطابق ان نئے آنے والے نمائندوں میں سے ایک47 سالہ فارماسسٹ علاء الرقابی ہیں جن کی جماعت امتداد (توسیع) اقتدار سے جڑی ہوئی سیاسی اشرافیہ کے خلاف احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اکتوبر2019 میں سامنے آئی ہے۔
علاء رقابی نے اے ایف پی کو بتایا  ہےکہ امتداد ان حکومتوں کے خلاف 'اپوزیشن' کے طور پر کام کرتی ہے جو ایک غیر رسمی فرقہ وارانہ کوٹہ سسٹم کے ذریعے وجود میں آئی ہیں جو2003 میں امریکی قیادت دوران حملے کے بعد سے نافذ ہے۔

منجھے ہوئے سیاست دانوں کے برعکس نئے آنے والوں میں عام نمائندے ہیں۔ (فوٹو ٹوئٹر)

انتہائی محدود مالیات کے ساتھ انتخابی مہم چلانے کے باوجود، ان کی پارٹی نے ابتدائی نتائج کے مطابق 10 اکتوبر کے انتخابات میں عراقی کونسل کی 329 نشستوں میں سے 9 نشستیں حاصل کیں۔
علاء رقابی کا کہنا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ پارلیمنٹ میں  نشستوں کے حوالے سے ہماری پوزیشن ہمارے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھنے نہیں دے گی۔
انہوں نے مزید کہا  کہ ہماری پارٹی اس وقت اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے  فقط  نگران کے طور پر کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کوٹے کی بنیاد پر قائم ہونے والی کسی بھی حکومت کا  حصہ نہیں بنیں گےاس کی وجہ ہے یہ ہے کہ  ہم  چاہتے ہیں کہ لیڈروں کا احتساب کر سکیں۔
علاء رقابی عراق کے شہر ناصریہ میں موجود اپنے گھر میں بات کر رہے تھے یہ شہر عراق میں موجود  شیعہ فرقے کے مظاہروں کا مرکز رہاہے۔
واضح رہے کہ عراق کے انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں کے تسلط برقرار رکھنے کے باعث ووٹروں کی تعداد میں ریکارڈ کمی دیکھنے میں آئی تھی۔

سیاسی اشرافیہ سے تنگ سول سوسائٹی کی تحریک سے سیاست کا آغاز کیا۔ (فوٹو ٹوئٹر)

انتخابات کے غیر حتمی نتائج سامنے آنے پر شیعہ عالم مقتدی صدر کی جماعت نے 70 نشستیں حاصل کی ہیں جس کا حتمی اعلان چند ہفتوں میں کیا جائے گا۔
اس موقع پر 28 سالہ حسین علی نے بتایا ہےکہ دو سال قبل ہونے والے مظاہرے کے دوران کمر میں گولی لگنے کے بعد سے وہ اب تک وہیل چیئر پر ہیں۔
 انہوں نے کہا کہ میں نے امتداد پارٹی کو ووٹ دیا ہے کیونکہ مجھے امید ہے کہ وہ مظاہرین کے حقوق کے لیے لڑ سکتے ہیں۔
حسین علی نے مزید بتایا کہ جب سے میں زخمی ہوا ہوں، مجھے حکومت سے کوئی معاوضہ یا امداد  نہیں ملی۔
بہت سے منجھے ہوئے سیاست دانوں کے برعکس علا رقابی جیسے نئے آنے والوں کے پاس سرمایے کی کمی ہے تاہم اس کے باوجود انہوں نے سیاسی مہم چلائی ہے۔
عراق کے صوبہ ذی قار میں پوسٹرز اور تقریبات کے لیے امتداد پارٹی نے 4 ملین عراقی دینار(2700 ڈالر) خرچ کیے ہیں اس کے مقابلے میں ناصریہ شہر میں اکثر بڑی جماعتیں انتخابات پر دسیوں کروڑ سرمایہ خرچ کیا ہے۔ امتداد پارٹی کے لیےاپوزیشن ہی واحد آپشن ہے۔
 

شیئر: