Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: کریں تو کیا کریں؟

اگر پولیس کچھ نہ کرے تو اسے کنٹرول کرنے والی ریاستی حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟ (فوٹو: اے ایف پی)
اگر ملک کی سپریم کورٹ یہ کہے کہ قتل کے ایک ہوش ربا کیس میں جس طرح ثبوت اور گواہیاں جمع کی جا رہی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل ملزم کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے، تو پولیس کو کیا کرنا چاہیے؟
اگر پولیس کچھ نہ کرے تو اسے کنٹرول کرنےوالی ریاستی حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟
اگر ملزم ایک وفاقی وزیر کا بیٹا ہو تو وزیر کو کیا کرنا چاہیے؟ اگر وزیر کچھ نہ کرنا چاہتے ہوں تو ان کے باس یعنی وزیراعظم کو کیا کرنا چاہیے؟
یہ سوال ہم نے ایک مرتبہ پہلے بھی پوچھے تھے، خود سے بھی اور آپ سے بھی، لیکن سچ یہ ہے کہ سوال تو بہت اچھے ہیں لیکن ان کا کوئی جواب نہیں ہے۔
لیکن یہ بات سپریم کورٹ کو کون بتائے۔ عدالت میں جا کر یہ کون کہے کہ مائی لارڈ پولیس کسی کی نہیں ہوتی، وہ صرف سچائی اور انصاف کا دامن پکڑ کر چلتی ہے۔ اس کی تربیت ہی اس طرح کی جاتی ہے۔
اس کیس میں دو مقدمے قائم کیے گئے ہیں۔ ایک ان چار کسانوں اور ایک صحافی کے قتل کے سلسلے میں جنہیں گاڑیوں کے ایک قافلے نے کچل کر ہلاک کر دیا تھا۔ اور دوسرا بی جے پی کے ان تین کارکنوں کے قتل کے سلسلے میں جنہیں مشتعل ہجوم نے اس واقعے کے بعد مار ڈالا تھا۔
کسان متنازع زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک گاڑی انڈیا کے نائب وزیر داخلہ کی تھی۔ اور اب ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ وزیر کے بیٹے صاحب بھی جائے وقوعہ پر موجود تھے۔ انہیں پہلے ہی گرفتار کرکے جیل بھیجا جا چکا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ سپریم کورٹ کو چابک چلانا پڑا تو انہیں گرفتار کیا گیا شاید اس لیے کہ جیلوں میں پہلے ہی بہت بھیڑ ہے اور جب تک بالکل مجبوری نہ ہو قید خانوں میں بھیڑ بڑھانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ریساتی حکومت اگر کہے کہ ملزم جائے وقوعہ پر موجود تھا تو اس کی نیک نیتی پر بھی شبہہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ حکومتیں جھوٹ نہیں بولتیں، اور اس وقت تو بالکل نہیں جب اچھی کوالٹی کی ویڈیو موجودو ہوں۔ ویڈیو ہم نے دیکھی نہیں ہے لیکن ریاستی حکومت کے وکیل نے خود سپریم کورٹ میں اس کا اعتراف کیا ہے۔
لیکن اگر ایک کے بعد ایک گواہ آکر کہیں کہ وزیر موصوف کے بیٹے وہاں تھے ہی نہیں تو پولیس اس میں کیا کرسکتی ہے۔ پولیس کا کام سچ اگلوانا ہے، جھوٹ بلوانا نہیں۔

لیکن اگر مسئلے سسٹم میں ہے تو باقی لوگوں کو کس کے سہارے چھوڑا جارہا ہے؟ (فوٹو اے ایف پی)

عدالتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عام آدمی کی بات پر آسانی سے یقین نہیں کرتیں۔ گواہی دینے والے یہ درجنوں لوگ کون ہیں اور وہ بے وجہ کیوں جھوٹ بولیں گے؟ ان سے جھوٹ بلوانے میں پولیس کی کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ اور رہی ریاستی حکومت اور وفاقی وزیر کی بات، تو وہ بھی تو قانون اور آئین کی پاسداری کا حلف لیتے ہیں، وہ کوئی غلط کام کیسے کر سکتے ہیں؟
بہر حال، سپریم کورٹ کو لگتا ہے کہ جس طرح یہ گواہیاں ریکارڈ کی جارہی ہیں، انہیں مقدمے کی شنوائی کے دوران 'اصل ملزم' کے خلاف کیس کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا۔ اس لیے عدالت اتر پردیش سے باہر کی کسی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو تفتیش کی نگرانی کی ذمہ داری دینا چاہتی ہے۔
لیکن کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟ ایسا پہلے بھی بہت بار ہوا ہے۔ کبھی انصاف کا تقاضہ پورا کرنے کے لیے مقدمے کی سماعت ہی ریاست کےباہر منتقل کر دی جاتی ہے، ایسا گجرات کے فسادات سے متعلق مقمدات میں بھی ہوا تھا، کبھی غیرجانبداری کو یقینی بنانے کے لیے سابق ججوں کی سربراہی میں خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی جاتی ہیں۔ لیکن ایسا بڑے کیسز میں ہوتا ہے۔
لیکن اگر مسئلے سسٹم میں ہے تو باقی لوگوں کو کس کے سہارے چھوڑا جارہا ہے؟ اگر سپریم کورٹ کو پولیس پر بھروسہ نہیں ہے تو اس کا تدارک کیا ہے؟
انڈیا میں صرف پولیس ہی نہیں پورے عدالتی نظام کے اوور ہال کی ضرورت ہے۔ کسے ضمانت ملنی چاہیے اور کسے جیل جانا چاہیے، یہ فیصلے کافی آسان اور صاف شفات ہونے چاہئیں لیکن ہیں نہیں۔ شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کی گرفتاری اور عدالتی ریمانڈ اس کی بہترین اور تازہ مثال ہے۔
یہ کام بہت مشکل نظر آتا ہے لیکن ہے نہیں۔ ضرورت جوابدہی طے کرنے کی ہے۔ اگر سپریم کورٹ کو لگتا ہے کہ کسانوں کے قتل کے کیس میں ملزم کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے تو اس کی ذمہ داری طے ہونی چاہیے، تاکہ آئندہ کسی تفتیش میں پولیس ہیر پھیر کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔ اگر پولیس کسی کو جھوٹے مقمدے میں پھنسائے یا سچے مقدمے میں بچائے تو کسی کو تو سزا ملنی چاہیے۔

پولیس فورسز ریاست حکومتوں کے تحت کام کرتی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن جوابدہی پولیس پر ختم نہیں ہوسکتی۔ پولیس فورسز ریاست حکومتوں کے تحت کام کرتی ہیں۔
پیغام پولیس کو بھی جانا چاہیے اور حکمرانوں کو بھی۔ مثال کے طور پر اگر صرف نائب وزیر داخلہ سے کہا جائے کہ تفتیش مکمل ہونے تک آپ مستعفی ہو جائیے تو یہ ان لوگوں کے لیے بھی واضح پیغام ہوگا جو تفتیش کر رہے ہیں، ان کے لیے بھی جو مداخلت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کے لیے بھی جو مستقبل میں قانون توڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
بہت سے جرم صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ مجرم کو سسٹم پر بھروسہ ہوتا ہے۔ اگر یہ بھروسہ ٹوٹ جائے تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔
اس بھروسے کو توڑنے کے لیے وزیراعظم اپنے وزیر کو برخاست کرسکتے ہیں، یا کم سے کم ان کا قلمدان ہی بدل دیں، وزیر خود ذمہ داری سمجھتے ہوئے مستعفی ہوسکتے ہیں، ریاستی حکومت پولیس کو غیرجانبداری سے کام کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے اور پولیس سیاسی دباؤ کے سامنے جھکنےسے انکار کرسکتی ہے۔
ہو تو بہت کچھ سکتا ہے لیکن ماضی کا تجربہ اگر ہمیں کچھ بتاتا ہے تو وہ صرف یہ کہ ہوگا کچھ نہیں۔

شیئر: