’دوبارہ‘: ایسی عورت کی کہانی جسے شوہر کی موت نے ’زندہ‘ کیا
’دوبارہ‘: ایسی عورت کی کہانی جسے شوہر کی موت نے ’زندہ‘ کیا
ہفتہ 27 نومبر 2021 5:32
عنبرین تبسم، لاہور
’شوہر مرا ہے میرا، میں تو نہیں مری‘
ڈرامہ ’دوبارہ‘ میں مہرالنسا (مہرو) کا کردار پاکستانی معاشرے کی بہت سی دقیانوسی روایات اور خیالات کو چیلنج کر رہا ہے۔ یہ ڈرامہ ایک ایسی لڑکی کی زندگی کی کہانی پر مبنی ہے جو کم عمری میں اپنے سے بڑی عمر کے شخص کے ساتھ شادی کے بعد اپنے شوہر کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔
کیسے کپڑے پہننے ہیں، کیسا میک اپ کرنا ہے، کہاں جانا ہے، کس سے ملنا ہے، یہ فیصلہ بھی وہ نہیں بلکہ اس کا شوہر کرتا تھا۔ ایسے میں بہت سے خواب اور خواہشیں اس کے دل میں ہی کہیں دفن ہو جاتی ہیں۔
اپنی آدھی زندگی ایسے شخص کے ساتھ گزرانے کے بعد جب مہرو کے شوہر ہدایت اللہ کا انتقال ہو جاتا ہے تو وہ خود پر بیوگی کو طاری نہیں کرتی بلکہ اپنے انداز میں ایک نئے ڈھنگ سے اپنی زندگی کو جینا شروع کرتی ہے۔
وہ ہلکے رنگ کے کپڑوں کے بجائے شوخ رنگ کے لباس پہنتی ہے، اپنی پسند کا بناؤ سنگھار کرتی ہے، گھر کی چار دیواری میں قید ہونے کے بجائے باہر نکلتی ہے اور اب وہ کسی اور کی ڈکٹیشن نہیں بلکہ اپنی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز پر زندگی جی رہی ہے لیکن یہ اس کے لیے اتنا آسان نہیں۔
گھر والے، رشتے دار، دوست ہر کوئی اس کی بدلی ہوئی شخصیت پر حیرانی کے ساتھ ساتھ طنزیہ جملے کستا ہے۔
اس کی نند جس کا کردار سکینہ سومرو ادا کر رہی ہیں، اسے ہر وقت یہ باور کراتی ہیں کہ اب وہ ایک بیوہ ہے اور ’بیوہ کو یہ سب زیب نہیں دیتا۔‘
ڈرامے میں مردوں اور خواتین کے حوالے سے معاشرے کے دہرے معیار کو بھی اجاگر کیا گیا ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک مرد اپنے سے چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی تو کر سکتا ہے لیکن یہی معاشرہ ایک بڑی عمر کی عورت کی اپنے سے چھوٹی عمر کے لڑکے کے ساتھ شادی کو قبول نہیں کرتا۔‘
اردو نیوز نے اس ڈرامے کی رائٹر ثروت نذیر سے گفتگو کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ انہیں مہروالنسا کا کردار لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔
ثروت نذیر کہتی ہیں کہ ’اس موضوع پر پہلے بھی بہت سے رائٹرز نے کام کیا ہے اور میں بھی جب اس کے بارے میں سوچتی تھی تو میں اسے مثبت انداز میں لکھنا چاہتی تھی۔‘
ثروت نذیر نے بتایا کہ ’ ہمارے معاشرے میں عورت کی عمر کو لے کر بہت سے دہرے معیار ہیں تو مجھے لگتا تھا کہ ہمارے مذہب میں تو ایسا کچھ نہیں ہے تو ہم کیوں اسے اتنا منفی سمجھتے ہیں۔ اگر لڑکی کی عمر لڑکے سے زیادہ ہو تو ہم چونک جاتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ کہانی صرف ایک بڑی عمر کی عورت کی ایک نوجوان سے شادی کے متعلق ہی نہیں ہے اس میں اور بھی بہت سی چیزیں ہیں۔ مہرو میں بہت سی محرومیاں ہوتی ہیں، اسے جب آزادی ملتی ہے تو وہ انہیں (خواہشوں کو) پورا کرنا چاہتی ہے۔‘
ثروت کے بقول ہمارے معاشرے میں مردوں کا رویہ تھوڑا سا تحکمانہ ہوتا ہے، جب لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو اسے بہت سی چیزیں نئے سرے سے سمجھنی پڑتی ہیں اور ہر انسان کی طبیعت اور طرح کی ہوتی ہے۔ عورت کو اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ جہاں جا رہی ہے اس ماحول میں ڈھلے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی لڑکی اپنی مرضی سے خود کو اس ماحول میں ڈھال لے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن جب آپ کسی کے ساتھ زبردستی کرتے ہیں تو اس میں ایک باغیانہ سوچ ضرور پیدا ہوتی ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ مہرو نے اپنے شوہر کی زندگی میں ہی اپنے لیے آواز کیوں نہیں اٹھائی، ثروت نذیر نے کہا کہ ’بعض اوقات انسان جس ماحول میں رہ رہا ہوتا ہے اس کی سوچ بھی پھر ویسی ہی ہو جاتی ہے، آپ محدود پیمانے پر سوچ رہے ہوتے ہیں اور جب وہ بندشیں ختم ہوتی ہیں تو آپ کی سوچ میں بھی ایک تبدیلی آ جاتی ہے۔‘
’ظاہر ہے جب آپ کسی ایسی جگہ پر ہوں جہاں آپ کو یہ خیال کرنا پڑے کہ اگر میں ایسا کچھ کہوں گا تو لوگ کیا کہیں گے تو آپ اس طرح سوچتے ہی نہیں ہیں۔ مہروالنسا کو جب آزادی ملتی ہے تو اس کے سوچنے کا انداز ہی بدل جاتا ہے۔ ‘
ثروت سمجھتی ہیں کہ برسوں کی روایات سے ہٹ کر کوئی کچھ کرنے کی کوشش کرے گا تو لوگ حیران تو ہوں گے۔ اصل میں کچھ رسم و رواج ہمارے ذہنوں میں اتنے راسخ ہو چکے ہیں کہ ہم ان سے ہٹ کر سوچ ہی نہیں پاتے۔‘
ثروت نذیر نے ڈراموں میں خواتین کے مضبوط کردار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ مجھے مجبور، بے کس اور بے زبان عورتوں کے کردار لکھنا بالکل پسند نہیں ہے۔‘مہرو کا کردار ایک بہت مضبوط عورت کا کردار ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں لگتا ہے کہ یہ ڈرامہ لوگوں کے خیالات بدل سکے گا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اگر اس ڈرامے سے کوئی سوچنے پر مائل ہو جائے گا تو یہ میری کامیابی ہوگی۔ بارش کا پہلا قطرہ ہی سہی، ایک دن میں انقلاب نہیں آیا کرتا لیکن سوچنے پر مجبور کرنا ہی ایک بڑی کامیابی ہوتی ہے۔‘