Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آخر کب تک‘: ’ڈرامے میں ہمارا ہیرو نور ہے جو ایک انسپائریشن ہے‘

پاکستانی ڈراموں میں زیادہ تر کہانیاں خواتین کے گرد ہی گھومتی ہیں جن میں شادی کو ہی ان کی زندگی کا واحد مقصد دکھایا جاتا ہے۔ ایک لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو کر رات دن اس کو حاصل کرنے کے خواب دیکھنا، ایک مرد کے پیچھے آپس میں لڑنا، سازشیں کرنا۔۔۔
اگر ڈرامے میں ایک شادی شدہ عورت کی کہانی ہے تو ساس بہو کی چپقلش دکھائے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ ان ڈراموں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ عورت کی زندگی کے بس یہی مسائل ہیں۔
لیکن ’آخر کب تک‘ ایک ایسا ڈرامہ ہے جس نے خواتین کے ان مسائل کو اجاگر کیا ہے جن پر بات کرنے سے پہلو تہی کی جاتی ہے،اس ڈرامے کی منفرد بات یہ ہے کہ اس نے خواتین کو ہمت، حوصلہ اورمضبوط بننے کی ترغیب دی ہے۔
صفیا (جویریہ عباسی)  کو ایسی خاتون دکھایا گیا ہے جو ایک روایتی بیوی ہے جس نے شوہر کی ہر بات کی تعمیل کو زندگی کا شعار بنا رکھا ہے۔ چُپ چاپ اس کی کڑوی کسیلی باتیں سننا، ظلم سہنا، غلط بات ہر بھی خاموشی اختیار کیے رکھنا صفیا کے لیے یہی ایک ’اچھی بیوی‘ کی تعریف ہے۔
ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ گھر کا ماحول کس طرح صفیا کی بیٹیوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ فجر (صرحا اصغر) اپنی ماں کا ہی عکس ہے، ایک ڈری سہمی لڑکی جو اپنے لیے بھی آواز نہیں اٹھا سکتی۔ 
جبکہ دوسری طرف نور (عشنا شاہ) ہے جو اپنے گھر کی خواتین سے مختلف شخصیت کی مالک ہے۔ ایک ایسی مضبوط لڑکی جو اپنے گھر میں ہونے والی ناانصافیوں پر آواز اٹھاتی ہے، اپنی ماں اور بہن کے لیے ڈھال بنتی ہے اور ہر چیلنج کا سامنا کرتی ہے۔
اردو نیوز نے اس ڈرامے کے رائٹر رادیان شاہ سے بات چیت کی ہے اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ انہوں نے ریٹنگز لانے والے موضوع سے ہٹ کر ڈرامہ لکھنے کا رسک لیا، آج کل اس طرح کے ڈرامے دکھانا کیوں ضروری ہیں۔

 ’آخر کب تک‘ ایک ایسا ڈرامہ ہے جس نے خواتین کے ان مسائل کو اجاگر کیا ہے جن پر بات کرنے سے پہلو تہی کی جاتی ہے (فوٹو: عشنا شاہ انسٹاگرام)

رادیان شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’رائٹر ہونے کے ناطے مجھ پر ایک ذمہ دار ہے میری کوشش یہی تھی کہ مثبت پیغام دے سکوں۔ بہت سے مسائل ہیں جن کے بارے میں بات نہیں کی جاتی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ڈرامے کی بہت سی اقساط ہیرو کے بغیر چلی ہیں، اس ڈرامے میں ہمارا ہیرو نور ہے۔ نور ایک ایسی لڑکی ہے جس نے غلط کو غلط کہنا سیکھا ہے کیونکہ اس نے اپنی ماں کو ساری زندگی اپنے باپ سے دبتے دیکھا ہے۔‘
ڈرامے میں خواتین کے کرداروں کے حوالے سے رادیان نے بتایا کہ ’صفیا ایک ایسی ماں رہی ہے جس نے اپنی بقا کی جنگ لڑی ہے جس کی دو بیٹیاں ہیں جن میں سے ایک باغی ہو گئی ہے اور دوسری وہ جو بالکل اپنی ماں جیسی بنی ہے۔ وہ بالکل سہمی ہوئی ڈری ہوئی رہی ہے کیونکہ اس نے باپ کو ماں پر چلّاتے ہوئے دیکھا۔ ماں نے اسے چُپ رہنے کی تلقین کی اور وہ کبھی بھی اپنے لیے کھڑی نہیں ہوئی۔ وہ سارا ماحول نور نے بھی دیکھا لیکن وہ ماحول اس میں بغاوت پیدا کر گیا۔‘
رادیان کے بقول ’ہمارے ڈرامے میں موضوع یہی ہوتا ہے کہ ایک لڑکا ہے اس کے پیچھے دو لڑکیاں لڑ رہی ہیں یا ساس بہو کا جھگڑا ہے۔ ایسا نہیں کہہ سکتے کہ یہ حقیقت نہیں ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف یہی حقیقت ہے۔ ہم نے نور کا کردار بنایا ہی موٹیویشن دینے کے لیے ہے، نور کا کردار ایک انسپائریشن ہے۔‘

رادیان شاہ کہتے ہیں کہ ایسے کردار دکھائے جائیں کہ لڑکی صرف لڑکے کے پیچھے یا ساس بہو کے جھگڑوں میں اپنی زندگی برباد نہیں کر رہی (فوٹو: جویریہ عباسی انسٹاگرام)

انہوں نے کہا کہ ’ایک بیٹی ماں کی پرورش کر رہی ہے، اسے سمجھا رہی ہے کہ آپ چُپ کر کے نہ بیٹھا کریں آپ ابو کی دادی کی باتیں نہ سنا کریں۔ اور پھر جب صفیا کے شوہر کو فالج ہوتا ہے تو صفیا اسے دل کی باتیں بتاتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے پوری زندگی کیسے برباد کی ہے صرف اس لیے کہ وہ اپنی نام نہاد مردانگی کو چینلج برداشت نہیں کر سکتا تھا۔‘
ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ فجر (صرحا اصغر) کو جب اس کا ٹیچر ہراس کرتا ہے تو اس کی والدہ اسے چُپ رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔ اس بارے میں رادیان نے بتایا کہ ’عموماً مائیں اپنی بیٹیوں کو چُپ کرا دیتی ہیں کہ اچھا رشتہ نہیں ہوگا۔ ڈرامے میں ہمارا مجرم واپس آیا اور مزید مضبوط ہو کر آیا کہ مجھے تو کسی نے کچھ کہا ہی نہیں۔ جو نور کرنے والی تھی اسے بھی اس کی ماں نے بہن نے سب نے مل کر چُپ کرایا۔ سب سے پہلا چُپ ماں ہی کراتی ہے بیٹی کو۔‘
رادیان نے بتایا کہ ’ہم نے ڈرامے میں یہ بھی دکھانا چاہا ہے کہ اگر آپ کا بیٹا نہیں تو کوئی بات نہیں۔ اگر آپ کی بیٹی پڑھی لکھی ہے تو وہ بھی کاروبار چلا سکتی ہے۔‘
رادیان سمجھتے ہیں کہ ’اب ضرورت ہے کہ ایسے کردار دکھائے جائیں کہ لڑکی صرف لڑکے کے پیچھے یا ساس بہو کے جھگڑوں میں اپنی زندگی برباد نہیں کر رہی ہے وہ کریئر اورینٹڈ ہے اور زندگی میں شادی کے علاوہ اور بھی بہت کام ہیں جو ایک لڑکی کر سکتی ہے۔‘
’ڈرامہ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اگر آپ فینٹیسی (خیالوں کی)  دنیا دکھاتے رہیں گے جس میں ایک لڑکی کا مقصد صرف ایک لڑکا حاصل کرنا ہے معذرت کے ساتھ یہ بہت غلط ہے۔ اب ڈرامہ کو بدلنے کی ضرورت ہے جو آہستہ آہستہ (تبدیل) ہو رہا ہے جس میں ایک لڑکی کا مضبوط کردار ہو۔‘

شیئر: