Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’صنفِ آہن‘: ’فوج میں لڑکے ہی نہیں لڑکیاں بھی اپنی جگہ بنا سکتی ہیں‘

’اسے کسی ہیرو کی ضرورت نہیں وہ ایک (ہیرو) بننے کے لیے پیدا ہوئی ہے۔‘
یہ ٹیگ لائن ہے ڈرامہ سیریل ’صنفِ آہن کی‘ جس کا حال ہی میں ٹیزر ریلیز ہوا ہے۔
عموماً یہ تاثر ہے کہ فوج میں بھرتی ہونے کی خواہش زیادہ تر لڑکوں کی ہی ہوتی ہے اور یہ دیکھا گیا ہے کہ لڑکوں کے والدین بچپن سے ہی ان کے لیے یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ ’ہمارا بیٹا بڑا ہو کر آرمی آفیسر بنے گا‘ اسی لیے جب بھی کسی چھوٹے بچے سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ’بڑے ہو کر کیا بنو گے؟‘ تو وہ معصومیت سے  جواب دیتا ہے کہ آرمی آفیسر یا پائلٹ بنوں گا۔‘
بچیوں کے حوالے سے والدین کی خواہش بالکل مختلف ہوتی ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی بڑی ہو کر ڈاکٹر، انجینیئر، یا شعبہ تدریس سے وابستہ ہو۔ اس کی وجہ شاید یہ تاثر ہے کہ لڑکیاں تو ’صنفِ نازک‘ ہیں وہ کیسے ایسے شعبے کا حصہ بن سکتی ہیں جس کے لیے جسمانی طور اور زہنی طور پر مضبوط ہونا، مشقت، حوصلہ اور ہمت شرط ہو۔
لیکن یہ ڈرامہ بتاتا ہے کہ ’صنفِ نازک‘ ’صنفِ آہن‘ بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس ڈرامے کے ٹیزر سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈرامے میں فوج میں بھرتی ہونے کی خواہش رکھنے والی عام گھرانوں کی لڑکیوں کی جدوجہد دکھائی گئی ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے تعاون سے بننے والے اس ڈرامے کو عمیرہ احمد نے تحریر کیا ہے جبکہ اس کی ہدایتکاری ندیم بیگ نے کی ہے۔
اس ڈرامے کی کاسٹ میں سجل علی، یمنی زیدی، سائرہ یوسف، کبری خان اور رمشا خان شامل ہیں۔ ڈرامے میں یہ خواتین پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ خود کار ہتھیار چلاتے بھی نظر آ رہی ہیں۔ سجل علی رابعہ سفیر اور عثمان مختار کیپٹن دانیال کا کردار نبھا رہے ہیں۔
ٹیزر میں دکھایا گیا ہے کہ رابعہ سفیر (سجل علی) کے والدین ان کے فوج میں جانے کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں لیکن وہ انہیں یہ کہہ کر قائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ ’جب تعلیم یافتہ لڑکیاں اچھی نوکری کر سکتی ہیں تو وہ گولڈ میڈلسٹ ہو کر فوج میں کیوں نہیں جا سکتیں؟‘
اردو نیوز نے ڈرامے کے ڈائریکٹر ندیم بیگ سے انٹرویو میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس ڈرامے کے ذریعے کیا پیغام دینا چاہا ہے اور کیا یہ ڈرامہ خواتین کے حوالے سے روایتی خیالات کو ختم کر سکے گا؟
ندیم بیگ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایسی کہانی کبھی نہیں بنی، فوج میں جانے والے لڑکوں پر تو کہانیاں بنی ہیں لیکن فوج میں جانے والی لڑکیوں کے حوالے سے ایسی کوئی (کہانی بنانے کی) کوشش نہیں کی گئی۔ یہ پانچ سے چھ لڑکیوں کی جدوجہد کی کہانی ہے جو مختلف علاقوں سے آتی ہیں اور فوج میں اپنی جگہ بناتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس ڈرامے کے لیے اداکاراؤں کو ٹریننگ بھی دی گئی۔ ’لڑکیوں کو ٹریننگ بھی دی گئی، کئی دن صرف ٹریننگ پر ہی لگ جاتے تھے۔ ہماری شوٹنگ ختم ہونے تک آدھی فوجی تو وہ بن چکی تھیں۔‘
ندیم بیگ کے مطابق ’اس ڈرامے کی اسی  فیصد شوٹنگ آﺅٹ ڈور کی گئی اور پورے پاکستان میں اسے شوٹ کیا گیا۔ مسائل اور چیلجنز بہت زیادہ تھے لیکن جب کوئی اچھا کام ہونے جا رہا ہوتو پھر یہ سب چیزیں زیادہ مشکل نہیں لگتیں۔‘
ہدایتکار ندیم بیگ کے بقول یہ ڈرامہ اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے بنا ہے کہ صرف لڑکے ہی فوج میں جا سکتے ہیں۔ ’اس ڈرامے کے بعد لڑکیاں یہ سوچیں گی کہ ہم فوج میں کیوں نہیں جاتیں ہمیں جانا چاہیے۔‘

شیئر: