Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کو ایران کے خلاف فوجی آپشن پر غور کرنا چاہیے: امریکی پینل

جون میں ورکشاپ پر ہونے والے حملے سے متاثر ہونے والے کیمروں کی جگہ نئے لگائے جائیں گے (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی سفارت کار اور سابق منتخب سیاسی حکام نے کہا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور جارحانہ ڈرون پروگرام سے روکنے کے لیے صدر جو بائیڈن کو فوجی آپشن پر بھی غور کرنا چاہیے۔
عرب نیوز کے مطابق پینل کی میزبانی نیشنل کونسل آف ریزیسٹینس آف ایران نے کی۔
پینل میں سابق سینیٹر جوزف لیبرمین، سابق سیکریٹری آرمز کنٹرول اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی رابرٹ جوزف ،سابق ڈائریکٹر ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی ڈیوڈ شیڈ، جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفسیر میتھیو کروئنگ اور جیوئش انسٹیٹیوٹ برائے قومی سلامتی کے ڈائریکٹر جوناتھن روہے شامل ہیں۔
این سی آر آئی نے تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے کہ کیسے ایران لبنان، عراق، یمن اور سعودی پر حملوں کے لیے ڈرونز استعمال کر رہا ہے اور کیسے وہ چین، روس اور وینزویلا کے ساتھ اتحاد بنا رہا ہے۔
لیبر مینن نے واشنگٹن میں این سی آر آئی کے شرکا کو بتایا کہ ’یہ بات ہمارے اتحادیوں کے لیے باعث تشویش ہے کہ وہ ہمارے اوپر انحصار نہیں کر سکتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم ویانا میں امریکہ کو جوہری معاہدے میں شامل کرنے کے لیے کوششیں کر کے غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اگرچہ ایسا اچھی نیت سے کیا جا رہا ہے لیکن وہ اس حقیقت تک نہیں پہنچ پا رہے کہ جو کچھ ایران ویانا یا پھر دنیا میں کر رہا ہے۔‘

ایران نیوکلیئر سائٹ پر بین الاقوامی مانیٹرنگ کیمرے لگوانے کے لیے تیار

ایران واشنگٹن کے دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے جوہری پروگرام کے لیے پرزے بنانے والی ورک شاپ پر اقوام متحدہ کے مانیٹرنگ کیمرے لگانے پر تیار ہو گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کی جانب سے ٹیسا کرج کمپلیکس پر لگائے گئے کیمرے اس وقت تباہ ہو گئے تھے جب جون میں ورکشاپ پر حملہ ہوا تھا جس کا الزام ایران نے اسرائیل پر لگایا تھا۔
رپورٹ کے مطابق اس کے بعد ایران نے تمام کیمرے ہٹا دیے تھے اور ایجنسی کو مزید کیمرے لگانے اور یا تبدیل کرنے سے روک دیا تھا۔
امریکہ نے آئی اے ای اے (انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی) کے اجلاس میں ایران کو دھمکی دی تھی اگر اس نے اپنا رویہ نہ بدلا تو کارروائی ہو گی جس سے ویانا میں ہونے والے مذاکرات بھی ختم ہو جائیں گے جن کا مقصد 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی ہے۔
ویانا میں قائم آئی اے ای اے مانیٹرنگ ڈیوائسز کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے جن کے بارے میں ایران کا کہنا ہے کہ ان کو اسرائیل کے حملے کی وجہ سے نقصان پہنچا تھا۔
نور نیوز ایجنسی کی بتایا گیا ہے کہ ’جذبہ خیر سگالی کے تحت ایران نے آئی اے ای اے کو متاثرہ کیمروں کی جگہ نئے کیمرے لگانے کی اجازت دے دی ہے۔‘
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’یہ ایران کی جانب سے ایک رضاکارانہ اقدام ہے، جس کا مقصد آئی اے ای اے کے ساتھ پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو ختم کرنا ہے۔‘
ایرانی نیوز ایجنسی کے مطابق ’خراب ہونے والے کیمروں کی جانچ پڑتال کے علاوہ ایجنسی کی جانب سے نئے لگائے جانے والے کیمروں کا ایرانی ٹیکنشنز جائزہ بھی لیں گے۔‘

سابق امریکی صدر نے 2018 میں امریکہ کو جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھا جبکہ موجودہ صدر بائیڈن اس کی بحالی چاہتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’ایران نے ایجنسی کو اجازت دے دی ہے کہ وہ متاثرہ کیمروں کی جگہ نئے لگا دے۔‘
ایران نے ورکشاپ پر حملے کا الزام اسرائیل پر لگایا جو کہ 23 جون کو کیا گیا تھا۔
حملے کے وقت ایران کی جانب واقعے کی تفصیلات بتائے بغیر کہا گیا تھا کہ اس نے عمارت پر حملے کو ناکام بنا دیا ہے۔
گذشتہ جمعرات کو مذاکرات کا سلسلہ بحال کیا گیا تھا جس کا مقصد 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کر لیا تھا جبکہ موجودہ صدر جو بائیڈن اس معاہدے کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے انکار کرتا آیا ہے جبکہ مغربی طاقتوں کا کہنا ہے اس کی جانب سے کی جانے والی یورینیئم کی افزودگی ایٹم بم کی تیاری کے لیے ہے۔

شیئر: