Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایران کو روکنے کے لیے امریکہ نئے راستے تلاش کر رہا ہے‘

صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ معاہدے پر واپس آنے کے لیے تیار ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات ناکام ہونے کے پیش نظر امریکہ دوسرے طریقے اپنا رہا ہے جن کے ذریعے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جا سکے۔
عرب نیوز کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے منگل کو کہا کہ ’ہم اس گھڑی، اس دن تک سفارت کاری کو جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ یہ اس وقت بہترین آپشن ہے، لیکن متبادل طریقہ کار اپنانے کے لیے ہم اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔‘
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سنہ 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کے لیے گذشتہ ہفتے ویانا میں مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ امریکہ سنہ 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں اس معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا اور ایران نے جواب میں معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی کو ممنوعہ سطح تک پہنچایا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ معاہدے پر واپس آنے کے لیے تیار ہیں جبکہ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں۔
تاہم ایران پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے رواں سال کے آغاز میں ہونے والی پیش رفت کو  بری طرح متاثر کیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کا بیان امریکی صدر کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف ’اضافی اقدامات‘ کی تیاری کر رہا ہے۔
مذاکرات کے حالیہ دور ان باتوں پر تعطل کا شکار ہیں کہ واشنگٹن کون سی پابندیاں اٹھانے کے لیے تیار ہے، اور ایران نے مستقبل میں امریکہ کے جوہری معاہدے سے نہ نکلنے کے حوالے سے ضمانتیں مانگی ہیں۔

ایران نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی کو ممنوعہ سطح تک پہنچایا تھا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ایران تمام پابندیوں کو فوری طور پر ہٹانے پر اصرار کر رہا ہے جبکہ امریکہ نے کہا ہے کہ ایران اگر جوہری معاہدے پر مکمل عمل درآمد کرتا ہے تو ایسی تمام پابندیاں ہٹا دی جائیں گی جو معاہدے کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتیں۔ 
ایران اس بات کی ضمانت بھی چاہتا ہے کہ ’کوئی امریکی انتظامیہ‘ دوبارہ معاہدے سے دستبردار نہیں ہوگی، لیکن جو بائیڈن اس کا وعدہ نہیں کر سکتے کیونکہ جوہری معاہدہ ایک غیر پابند سیاسی سمجھوتہ ہے، جس کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
ایک سینیئر ایرانی عہدیدار کا گذشتہ روز کہنا تھا کہ ’ہم امریکیوں پر دوبارہ کیسے یقین کر سکتے ہیں؟ کیا ہوگا اگر وہ دوبارہ معاہدہ ختم کر دیں؟ اس لیے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کو ضمانت فراہم کرنی چاہیے کہ ایسا دوبارہ کبھی نہیں ہوگا۔‘
’اس کو حل کرنا ان کا مسئلہ ہے، ہمارا نہیں۔ وہ کوئی حل تلاش کر سکتے ہیں اور ہمیں ضمانتیں دے سکتے ہیں۔‘

شیئر: