Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بلدیاتی الیکشن میں غلط امیدواروں کا انتخاب ناکامی کی بڑی وجہ بنی‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں غلطیاں کیں، جن کی قیمت چکانا پڑی (فوٹو: اے ایف پی)
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں غلطیاں کیں، جن کی قیمت چکانا پڑی۔
منگل کو ٹویٹ کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’غلط امیدواروں کا انتخاب ناکامی کی بڑی وجہ بنی، ابھی سے میں ذاتی طور پر ملک بھر میں ہونے والے اگلے مرحلے کے انتخابات خود دیکھوں گا۔‘
’انشا اللہ پی ٹی آئی مزید مضبوط ہو کر ابھرے گی۔‘
خیال رہے کہ اتوار کو خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں حکمراں جماعت کو کئی مقامات پر شکست ہوئی ہے اور صوبے کی اہم تحصیلوں حتیٰ کہ صوبائی دارالحکومت میں بھی اسے جمعیت علمائے اسلام کے مقابلے میں شکست کا سامنا ہوا ہے۔

’آپ نے مان لیا کہ آپ سمیت سلیکشن اچھی نہیں تھی‘

عمران خان کی ٹویٹ پر ردعمل میں مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ’آپ نےبھی مان لیا کہ آپ سمیت سیلیکٹرز کی سلیکشن اچھی نہیں تھی۔ جب ووٹ اور اُمیدوار چوری کے ہوں، نعرے، وعدے جھوٹ، لوٹ مار کا بازار گرم اور کارکردگی صفر ہو، عوام بے روزگاری، مہنگائی اور غربت کا شکار ہوں تو یہی حال ہوتا ہے جو خیبرپختونخوا میں عمران مافیا کا ہوا۔‘

’پی ٹی آئی کمزور ہوئی تو ملک بھیڑیوں کے ہاتھ لگ جائے گا‘

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تحریک انصاف کے ایک سپورٹر رانا عمران سلیم کی جانب سے کی جانے والی ٹویٹ کے جواب میں لکھا ’اگر جے یو آئی جیسی شدت پسند جماعتیں پی ٹی آئی کا متبادل ہیں تو واقعی آپ کی بات درست ہے۔‘

’اس صورت حال میں ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈالیں اور عمران خان کی قیادت میں خود کو منظم کریں۔‘
انہوں نے انتباہ کرتے ہوئے مزید لکھا ’اس وقت اگر پی ٹی آئی کمزور ہوئی تو ملک بھیڑیوں کے ہاتھ لگ جائے گا۔‘
علاوہ ازیں فاقی وزیر شبلی فراز سمیت پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں نے اس غیرمتوقع شکست کو مہنگائی اور اندرونی لڑائی کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مقامی صحافی محمد ریاض نے بتایا کہ اب خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع کی 64 تحصیلوں میں سے 18 میں جمعیت علمائے اسلام کامیاب ہو چکی ہے جبکہ پی ٹی آئی 15 تحصیلوں میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ تیسرے نمبر پر آزاد امیدوار ہیں اور پھر اے این پی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی پوزیشن نظر آتی ہے۔
بلدیاتی انتخابات میں شکست پر وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز نے کہا کہ ’پی ٹی آئی اس لیے ہاری کہ پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی سے تھا، اگر ایسا نہ ہوتا تو 14 اضلاع میں کامیاب ہوسکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’بلدیاتی الیکشن میں کارکنوں کو متحرک نہیں کرسکے، اب اگلے انتخابات میں حکمت عملی تبدیل کریں گے اور پارٹی ڈسپلن قائم کریں گے۔
دوسری جانب صوبائی وزیر محنت شوکت یوسفزئی نے بلدیاتی انتخابات میں شکست کی وجہ مہنگائی کو قرار دیا۔

بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں حکمراں جماعت کو کئی مقامات پر شکست ہوئی ہے (فوٹو: کے پی پولیس)

پی ٹی آئی کا اتنی سیٹیں جیتنا بھی حیرت انگیز ہے
انتخابی اور پارلیمانی امور کے ماہر قریش خٹک کے مطابق لوگ جے یو آئی یا اے این پی کی فتح پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ انہیں اس بات پر حیرت  ہے کہ پی ٹی آئی کو اتنے ووٹ بھی کیسے مل گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی صوبے میں دو حکومتیں آئیں اور دونوں عوام کو سہولیات فراہم کرنےمیں ناکام ہوئیں۔ اب لگتا ہے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے تاہم ابھی بھی تعجب ہے کہ پی ٹی آئی کو خاصے ووٹ پڑے۔ 
مستقبل میں پی ٹی آئی کی سیاست پر ان نتائج کے اثرات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آٹھ سال بعد پی ٹی آئی کے زوال کا اگر ٹرینڈ چل پڑا ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ اب پی ٹی آئی اس لہر کو واپس موڑ سکے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ابھی اپوزیشن کے جیتنے والے بلدیاتی عہدیدار اگلے الیکشن میں تحصیل کی سطح پر حکومت میں ہوں گے تو وہ بھی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکیں گے کیونکہ انتظامی مشینری ان کے ہاتھ میں ہو گی۔

 


شبلی فراز سمیت پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں نے شکست کو مہنگائی اور اندرونی لڑائی کا شاخسانہ قرار دیا ہے (فوٹو: پی آئی ڈی)

تحریک انصاف کیوں ہاری؟
اخبار نوائے وقت کے پشاور میں بیورو چیف محمد ریاض کے مطابق ’پی ٹی آئی کی ہار کی وجہ یہ تھی کہ جماعت بلدیاتی انتخابات کے لیے آخری وقت تک ذہنی طور پر تیار نہ تھی بلکہ اس نے انتخابات رکوانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تاہم جب انتخابات کروانے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو پھر جماعت اس کی تیاری میں وہ جوش و خروش نہ دکھا سکی جو جے یو آئی، اے این پی اور پی پی پی نے دکھایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن نے مہنگائی اور بے روزگاری کا بیانیہ بنا کر الیکشن لڑا جب کہ پی ٹی آئی کا کارکن بددل تھا۔ آخری دنوں میں پٹرول کی قیمت میں پانچ روپےکمی سے عوام میں مثبت تأثر پیدا نہ ہو سکا، عوام حکمراں جماعت کے اس بیانیے سے متفق نہ ہوئے کہ مہنگائی کی لہر عالمی ہے۔

کے پی کے 17 اضلاع کی 64 تحصیلوں میں سے 18 میں جمعیت علمائے اسلام کامیاب ہوئی ہے (فوٹو: فیس بک، شاکر اللہ)

دوسری طرف اپوزیشن کے امیدوار بھی مضبوط تھے اور انہوں نے مضبوط مالی سپورٹ سے مہم چلائی جبکہ حکمراں جماعت میں تقسیم تھی اور عام طور پر حکومت سے لوگوں کو شکایات ہوتی ہیں۔ ان سب وجوہات نے ہار میں اہم کردار ادا کیا۔
صوبے کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار سینئر تجزیہ کار محمود جان بابر کہتے ہیں کہ ’بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی شکست کی بڑی وجہ حکومتی کارکردگی پر ووٹرز کا عدم اطمینان ہے۔
ان کی صوبے میں دوسری بار حکومت آئی تھی مگر ہیلتھ کارڈ کے علاوہ صوبے میں کوئی بڑا انقلابی قدم نہیں اٹھا سکے اور ہیلتھ کارڈ بھی ایک بیمہ پالسی کے طور پر عوام کو دیا گیا۔

شیئر: