کراچی سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اور ڈان نیوز کے رپورٹر خاور حسین سانگھڑ میں حیدرآباد روڈ پر نجی ہوٹل کے باہر اپنی گاڑی میں مردہ حالت میں پائے گئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ خاور حسین کے سر پر گولی لگنے کا زخم ہے جبکہ جائے وقوعہ سے ایک پستول اور موبائل فون بھی برآمد ہوا ہے جن کو فارنزک کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پستول لائسنس یافتہ ہے یا نہیں، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ ایس ایس پی سانگھڑ عابد بلوچ کے مطابق واقعے کی تحقیقات ہر پہلو سے جاری ہیں۔
مزید پڑھیں
-
صحافی قتل کیس: ڈیرہ کے سربراہ سمیت 4مجرموں کو عمر قیدNode ID: 377901
-
ارشد شریف قتل کیس: سپریم کورٹ کے حکم پر نئی جے آئی ٹی تشکیلNode ID: 724291
-
سکھر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے صحافی جان محمد مہر قتلNode ID: 787456
واقعے پر سیاسی و صحافتی حلقوں نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
سندھ کے سینیئر وزیر شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ ’خاور حسین نہ صرف ایک پروفیشنل صحافی تھے بلکہ میرے قریبی رفقا میں سے تھے، ان کا اچانک انتقال ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔‘
اسی طرح پیپلز پارٹی کی مرکزی ترجمان شازیہ مری نے بھی اسے افسوسناک سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ معاملے کی مکمل اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔
اپوزیشن لیڈر سندھ علی خورشیدی نے خاور حسین کی صحافتی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے حکومت سے شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا۔
میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کے مطابق ’خاور حسین ایک باصلاحیت اور مخلص صحافی تھے جن کی کمی مدتوں محسوس کی جاتی رہے گی۔‘
گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’صحافی کا قتل صحافت اور معاشرے کے لیے بڑا سانحہ ہے، متعلقہ اداروں کو شفاف تحقیقات کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔‘
کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور نے بھی خاور حسین کی موت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا۔ کے یو جے دستور کے رہنماؤں نے کہا کہ حکومت سندھ فوری طور پر واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے اور حقائق عوام کے سامنے لائے۔
خاور حسین کئی نجی چینلز سے وابستہ رہ چکے تھے اور صحافتی حلقوں میں ایک ذمہ دار، سنجیدہ اور محب وطن صحافی کے طور پر جانے جاتے تھے۔