Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خلائی پتھر دنیا کو تباہ کرنے والا ہے‘ ہنسیں یا پریشان ہوں؟

فلم میں دنیا کو بچانے کی کوشش کرنے والے سائنسدانوں کا کردار لیونارڈو ڈی کیپریو اور جینیفر لارنس نے ادا کیا ہے (فوٹو: نیٹ فلیکس)
ٹوسٹ اور چائے کا مزہ لیتے ہوئے ایک خاتون سائنسدان اپنے کام میں مشغول ہیں کہ اچانک انہیں خلا کا معائنہ کرنے والی سکرین پر ایک خلائی پتھر (یا دمدار ستارہ) زمین کی جانب بڑھتا نظر آتا ہے۔
یہ دیکھ کر وہ پر جوش تو بہت ہوتی ہیں لیکن  منظر خطرے کی گھنٹی بھی بجا دیتا ہے۔  
حیرت کی بات یہ ہے کہ خطرے کی یہ گھنٹی سائنسدانوں کی اس ٹیم کے علاوہ کوئی اور نہیں سنتا یا سننے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
یہی دکھایا گیا ہے لیونارڈو ڈی کیپریو اور جینیفر لارنس کی  نئی فلم ’ڈونٹ لک اپ‘ میں۔  
سنسنی اور گلیمر سے بھری سکرینوں کے دور میں اب سائنس کے بارے میں سننے اور جاننے میں مٹھی بھر افراد ہی دلچسپی لیتے ہیں۔ ہماری دنیا میں کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور انسان کن خطرات کی جانب بڑھ رہا ہے، اس سے زیادہ نوجوان نسل کی دلچسپی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی مزاحیہ خبروں میں ہے۔
اس فلم میں دنیا کو بچانے کی کوشش کرنے والے سائنسدانوں کا کردار لیونارڈو ڈی کیپریو اور جینیفر لارنس نے ادا کیا ہے جو اس فلم میں رینڈل منڈی اور کیٹ ڈبیاسکی کا رول نبھا رہے ہیں۔
زمین کو بچانے کے لیے یہ دونوں امریکی سائنسدان حکومت کی مدد لینے کے لیے واشنگٹن روانہ ہوتے ہیں۔
وہ وائٹ ہاؤس پہنچتے ہیں مگر وہاں بھی ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
بالآخر گھنٹوں انتظار کے بعد انہیں ’امریکی صدر‘ سے ملاقات کا موقع ملتا ہے۔
امریکی صدر جینی اورلین کا کردار بالی وڈ کے ایک اور بڑے نام، میرل سٹریپ، نے ادا کیا ہے۔ فلم میں امریکی صدر سے ملاقات کے دوران دونوں سائنسدان انتظامیہ کو خطرے سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی بات کسی کو سمجھ نہیں آتی ہے۔
کیٹ ڈبیاسکی کے سمجھانے پر جب امریکی حکومت کی انتظامیہ تک آسان الفاظ میں پیغام پہنچتا بھی ہے تو اسے مذاق سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
اپنی ان ہی کوششوں کے دوران دونوں ٹی وی سکرین کی مدد لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک ٹی وی شو پر کیٹ ڈبیاسکی اور رینڈل منڈی سے قبل مشہور گلوکارہ آریانا گرانڈے نمودار ہوتی ہیں جن کی گفتگو کا عنوان ان کے ذاتی تعلقات ہوتے ہیں۔ ان کے بعد دونوں سائنس دان سکرین پر آکر لوگوں کو آنے والے خطرے سے متعلق آگاہ کرتے ہیں تاکہ امریکی حکومت کو کسی طرح ایکشن لینے پر قائل کر سکیں۔  

فلم میں سائنسدان انتظامیہ کو خطرے سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی بات کسی کو سمجھ نہیں آتی ہے (فوٹو: نیٹ فلیکس)

لیکن جب شو کی ٹیم ریٹنگ دیکھنے بیٹھتی ہے تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ جس وقت آریانا گرانڈے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بات کر رہی تھیں اس دوران کئی لوگ شو دیکھ رہے تھے۔ جبکہ ریٹنگ کے مطابق سائنس دانوں کی باتوں میں کم ہی لوگوں نے دلچسپی لی۔
صرف شو دیکھنے والے ہی نہیں بلکہ اس کے میزبان بھی سائنسدانوں کی تنبیہہ کو ہنسی میں اُڑا دیتے ہیں۔  
اس شو سے کیٹ ڈبیاسکی کو شہرت تو ملتی ہے لیکن وہ صرف مزاحیہ میمز کی صورت میں۔ 
جب شو کے میزبان ان کی بات سنجیدگی سے نہیں لیتے تو وہ غصے اور دکھ کا اظہار کرتی ہیں، جس پر ان کے چہرے کے تاثرات جلد ہی میمز میں تبدیل ہو کر سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتے ہیں۔
یہی اس فلم کا بنیادی موضوع ہے کہ سوشل میڈیا اور لوگوں کے درمیان مقبول ہونے والی خبروں میں زیادہ تر وہی معلومات شامل ہوتی ہیں جو قلیل مدت کے لیے دلچسپ محسوس ہوتی ہیں اور اس سے کسی کی زندگی پر شاید ہی کوئی فرق پڑتا ہے۔
تاہم سائنس سے متعلق معلومات، جن کے انسانوں پر دیر پا اثرات ہوتے ہیں، پر کم ہی لوگوں کا دھیان جاتا ہے۔ نتیجتاً ایسی خبریں شاذ و نادر ہی سوشل میڈیا پر گردش کرتی نظر آتی ہیں۔

جب امریکی حکومت کی انتظامیہ تک پیغام پہنچتا بھی ہے تو اسے مذاق سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیا جاتا ہے (فوٹو: نیٹ فلیکس)

فلم میں اس حساس موضوع کو جس طریقے سے پیش کیا گیا ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ فلم ساز ایڈم میک کے کا مقصد ایک سنجیدہ مسئلے کو نمایاں کرنا ہے۔
اس فلم کی تیاری میں سائنسی ماہر  ڈاکٹر ایمی مینزر کا بھی اہم کردار رہا ہے۔
ڈین آف گیک نامی ویب سائٹ نے ڈاکٹر ایمی مینزر سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے سوال کیا کہ آیا واقعی کوئی خطرہ کرہ ارض کو لاحق ہوسکتا ہے۔
جس پر انہوں نے بتایا کہ ’فلم کے ذریعے یہی پیغام لوگوں تک پہنچایا گیا ہے کہ ایسا ممکنہ طور پر ہوسکتا ہے۔‘

شیئر: