Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی، ہندوتوا اجتماع کے منتظمین کے خلاف مقدمہ

پرابودہانند گیری کا کہنا ہے کہ ’مجھے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔‘ (فوٹو اے ایف پی)
انڈین ریاست اترکھنڈ کی پولیس نے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور ان کی نسل کشی کرنے کے لیے اکسانے پر ہندو توا ’دھرم سسند‘ اجتماع کے منتظم یاتی نراسیمہانند سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
انڈین نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق ہندوؤں کے دھرم سسند نامی اس تین روزہ اجتماع میں یاتی نراسیمہانند نے مسلمانوں کے خلاف ’نفرت انگیز‘ تقریر کی تھی۔ اس سے قبل بھی ان پر اس طرح کی تقریریں کرنے کا الزام ہے۔
ان پانچ افراد پر مذہبی گروہوں میں لڑائی کروانے اور عبادت میں خلل ڈالنے کے الزامات پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اس اجتماع میں تقاریر کے ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی جس کے بعد اجتماع کے منتظمین شید تنقید کی زد میں ہے۔ انڈیا کے سابق آرمی چیفس اور سماجی کارکنوں نے  بھی منتظمین کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق پولیس کی جانب سے کارروائی چار دن کی تاخیر سے اور وہ عوامی سطح پر مطالبات سامنے آنے کے بعد کی گئی ہے۔
تاہم اجتماع کے منتظمین اور مقررین کا کہنا ہے کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔
پولیس کے پاس جمع کرائی گئی درخواست میں ہندو رکشا سینا کے پرابودہانند گیری، پی جے پی ویمن ونگ کی رہنما آدیتیا تیاگی اور بی جے پی رہنما آشوینی اپادہے کو نامزد کیا گیا ہے۔
پرابودہانند گیری کا کہنا ہے کہ ’مجھے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ میں پولیس سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ میں اپنے بیان پر قائم ہوں۔ اگر کوئی مجھے مارنے کی کوشش کرتا ہے تو میں جواب دوں گا۔ میں قانون سے نہیں ڈرتا۔‘
وکلا کا سوموٹو ایکشن کا مطالبہ
ہریدوار اور دہلی میں ہونے والی نفرت انگیز تقاریر پر انڈیا کے چوٹی کے 76 وکلا نے انڈین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رامانا کو خط لکھا ہے اور سوموٹو ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ ’یہ محض نفرت انگیز تقاریر نہیں ہیں، تمام کمیونٹی کو قتل کرنے کا کہا گیا ہے جس سے نہ صرف ملکی اتحاد کو خطرہ ہے بلکہ لاکھوں مسلمانوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں۔‘

خط کے مطابق مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کی اس طرح کی کھلی دھمکیاں عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہیں (فوٹو اے ایف پی)

سابق انڈین آرمی چیفس کا خط
اس سے قبل انڈین فوج کے پانچ سابق چیفس نے صدر رام ناتھ کووند اور وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھا تھا۔
خط میں ملکی سرحدوں کی موجودہ صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا گیا کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کی اس طرح کی کھلی دھمکیاں نہ صرف اندرونی طور پر عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہیں بلکہ بیرونی قوتیں بھی اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکیاں دینے والے ہریدوار میں ہندوتوا کے اجتماع ’دھرم سنسد‘ کا براہ راست حوالہ دیتے ہوئے خط میں لکھا ہے کہ ’ہم ہندوؤں کے دھرم سنسد نامی تین روزہ مذہبی اجتماع کے دوران کی گئی تقریروں کے مواد سے سخت پریشان ہیں۔‘
’ 17 سے 19 دسمبر 2021 کے درمیان ہریدوار میں سادھو اور دیگر رہنماؤں کی جانب سے ہندو راشٹر کے قیام کی ضرورت اور ہندومت کے تحفظ کے نام پر ہتھیار اٹھانے اور بھارتی مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے بار بار مطالبات کیے گئے۔‘

خط میں کہا گیا کہ اس طرح کے مزید فتنہ انگیز اجتماعات دوسری جگہوں پر منعقد کیے جا رہے ہیں (فوٹو اے ایف پی)

خط میں دہلی کے ایک اور واقعے کا بھی ذکر موجود ہے جب ہندوتوا کی تنظیموں کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ملکی درالحکومت میں جمع ہوئی اور عوامی طور پر حلف لیا کہ بھارت کو ہندو راشٹر بنایا جائے گا اور اس کے لیے اگر ضروری ہوا تو لڑائی اور قتل عام کیا جائے گا۔
خط میں کہا گیا کہ اس طرح کے مزید فتنہ انگیز اجتماعات دوسری جگہوں پر منعقد کیے جا رہے ہیں۔

شیئر: