Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ارکانِ پارلیمنٹ کی ٹیکس ڈائریکٹری پر سوالات کیوں اُٹھ گئے؟

ٹیکس ڈائریکٹری میں متعدد ارکان کی جانب سے زرعی آمدن پر صوبوں کو دیے گئے ٹیکس کی تفصیلات بھی شامل نہیں کی گئیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے جاری ہونے والی ارکان پارلیمنٹ کی 2019-2018 کی ٹیکس ڈائریکٹری میں وزیر خزانہ شوکت ترین سمیت متعدد ایسے ارکان پارلیمنٹ کے نام اور ٹیکس گوشوارے بھی شامل کر دیے گئے ہیں جو اس وقت پارلیمان کے رکن بھی نہیں تھے۔
ٹیکس ڈائریکٹری میں متعدد ارکان کی جانب سے زرعی آمدن پر صوبوں کو دیے گئے ٹیکس کی تفصیلات بھی شامل نہیں کی گئیں جبکہ ارکان نے ایف بی آر کے ٹیکس تخمینے پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
جب سے ٹیکس ڈائریکٹری منظرعام پر آئی ہے کچھ وزرا اور ارکان اسمبلی کی جانب سے وضاحتوں کا سلسلہ تو جاری ہے لیکن سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ایف بی آر کو لکھے گئے خط میں ٹیکس ڈائریکٹری کی ساکھ پر ہی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی کا موقف ہے کہ 2019-2018 میں وزیر خزانہ شوکت ترین، وہ خود اور متعدد ارکان پارلیمنٹ بالخصوص سینیٹرز پارلیمنٹ کا حصہ نہیں تھے۔
ان میں سے بھی اکثریت تنخواہ نہیں لیتی تھی تو ان کا ٹیکس بھی کم تھا، لیکن 2022 میں ٹیکس ڈائریکٹری جاری کرتے ہوئے ان کے نام شامل کرنے کا مطلب ان کی شہرت کو داغدار کرنے کے مترادف ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے یہ معاملہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں اٹھایا اور کہا کہ ’وزیر خزانہ جب 2019-2018 میں رکن پارلیمنٹ ہی نہیں تھے تو ان کا نام اس سال کی ٹیکس ڈائریکٹری میں شامل نہیں کرنا چاہیے تھے۔‘

یوسف رضا گیلانی کا موقف ہے کہ 2019-2018 میں وزیر خزانہ شوکت ترین، وہ خود اور متعدد ارکان، پارلیمنٹ کا حصہ نہیں تھے (فائل فوٹو:اے ایف پی)

اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’یوسف رضا گیلانی نے سال 2019-2018 میں زرعی آمدن پر 17 لاکھ روپے ٹیکس دیا لیکن ٹیکس ڈائریکٹری میں اس کا ذکر نہیں ہے۔'
’جو لوگ متعلقہ ٹیکس سال میں رکن نہیں تھے ان کا نام شامل کرنا زیادتی ہے۔ اس سے ہیڈ لائنز بنتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگ پگڑیاں اچھالتے ہیں لیکن ایف بی آر حکومت کی سیاسی کردار کشی اور انتقام کی پالیسی کو آگے بڑھا رہا ہے۔‘
اس معاملے پر مسلم لیگ ن کے سینیٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ ’ٹیکس ڈائریکٹری غلطیوں سے بھرپور ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کو میسیج کر کے دو دن قبل آگاہ کیا گیا کہ یہ ٹیکس ڈائریکٹری جاری کی جا رہی ہے اگر اس میں کسی کو کوئی اعتراض ہے تو وہ درست کروا سکتا ہے۔‘
’ارکان مصروف ہوتے ہیں موبائل میسج دیکھا ان دیکھا بھی ہو سکتا ہے اور مصروفیت کے باعث دو دن میں اس پر ردعمل دینا بھی ممکن نہیں ہوتا۔‘
ایف بی آر نے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی نشان دہی کو درست قرار دیتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ 2019-2018 کی ٹیکس ڈائریکٹری میں ان ارکان کے نام بھی شامل ہیں جو اس وقت رکن پارلیمنٹ نہیں تھے تاہم اب وہ رکن ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق کا کہنا تھا کہ 'ہم نے الیکشن کمیشن سے ارکان کی فہرست مانگی جو فہرست ملی ہم نے ان کو ٹیکس ڈائریکٹری میں شامل کرلیا۔‘
’اگر وزیر خزانہ یا کسی ایسے رکن کا نام شامل ہے جو اس وقت رکن نہیں تھے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تاہم اگر ان کو اعتراض ہے تو ہم ایسے نام نکال دیں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ٹیکس ڈائریکٹری میں کئی ارکان کے نام کے سامنے یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی آمدن اتنی ہوئی، انھوں نے اتنا ٹیکس ادا کیا لیکن ان کا ٹیکس بنتا اتنا تھا۔‘

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’جو لوگ متعلقہ ٹیکس سال میں رکن نہیں تھے ان کا نام شامل کرنا زیادتی ہے‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

’بعض ارکان کو اس پر بھی تحفظات ہیں۔ ہم نے ارکان کی جانب سے ٹیکس گوشواروں کی بنیاد پر سسٹم کے ذریعے اس کا تخمینہ لگایا ہے۔ اگر کسی رکن کو ہمارے سسٹم پر اعتماد نہیں یا وہ سمجھتا ہے کہ اس کی آمدن یا گوشواروں کے حساب سے ٹیکس کا تخمینہ درست نہیں لگایا گیا تو وہ رابطہ کرے ہم اسے بھی درست کرنے کو تیار ہیں۔‘
چیئرمین ایف بی آر نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ ٹیکس ڈائریکٹری پر اعتراضات دائر کرنے کا وقت کم اور طریقہ کار بھی درست نہیں تھا۔ مستقبل میں دو دن کے بجائے ایک ہفتے کا وقت دے کر ارکان سے باضابطہ رابطے بھی کیے جائیں گے۔‘
بعض کاروباری ارکان نے کارپوریٹ ٹیکس کو بھی ٹیکس ڈائریکٹری کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس پر ایف آر کا کہنا ہے کہ یہ قانون سے مطابقت نہیں رکھتا تاہم جو ارکان کسی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر ہیں اور ان کی جانب سے انکم ٹیکس جمع کروایا گیا ہے وہ ٹیکس ڈائریکٹری میں شامل ہیں۔

شیئر: