Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منی بجٹ سے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

شوکت ترین نے کہا کہ ’عام آدمی پر دو ارب روپے کا ٹیکس لگا رہے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
وفاقی حکومت نے منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا لیکن ابھی اس پر ووٹنگ نہیں کرائی گئی ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بل کو ’ضمنی مالیاتی بجٹ 2021 ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس کے بعد وزیر خزانہ شوکت ترین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’عام آدمی پر دو ارب روپے کا ٹیکس لگا رہے ہیں۔ بل میں 343 ارب روپے کے ٹیکس کی چھوٹ پر نظرثانی کی گئی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مالیاتی ضمنی بجٹ میں عام آدمی کے متاثر ہونے کی باتیں بے بنیاد ہیں۔‘
قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کرنے پر اپوزیشن کی جانب سے سخت احتجاج کیا گیا اور بعض اراکین کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’ساری قوم شرمسار ہے کہ اسمبلی میں کیا ہو رہا ہے۔ آپ قوم کو معاشی غلام بنا رہے ہیں۔ آج عوام کی زبان بند کرکے پاکستان کی معاشی خودمختاری بیچی جا رہی ہے۔‘
جے یو آئی کے رہنما مولانا اسعد محمود نے کہا کہ ’آپ ملک کی معاشی خود مختاری داؤ پر لگا رہے ہیں۔ آپ نے قومی اسمبلی کو بے توقیر کیا ہے۔‘
اسمبلی کے اجلاس میں دو بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے سربراہان، بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف موجود نہیں تھے۔
منی بجٹ 2021 کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ یہ ٹیکس اصلاحات آئی ایم ایف کے چھٹے ریویو مشن کے تحت ناگزیر تھیں۔

منی بجٹ میں کیا نیا ہے؟

منی بجٹ میں روزمرہ استعمال کے 42 آئٹمز پر ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کی گئی ہے۔ مقامی سطح پر فروخت ہونے والی اشیا، بیکری آئٹمز، ڈبل روٹی اور سویٹس، فلائٹس میں استعمال ہونے والی خوردنی اشیا، پولٹری کی برانڈڈ مصنوعات، مقامی سطح پر پیدا ہونے والے سرسوں اور تل کے بیجوں، سپرنکلز، ڈرپ اور سپرے پمپس پر ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کرنے کی تجویز ہے۔

مقامی سطح پر فروخت ہونے والی اشیا پر ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کرنے کی تجویز ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بل کے مسودے کے مطابق برانڈڈ پیکنگ میں فروخت ہونے والے ڈیری آئٹمز پر 10 فیصد، سونے چاندی کے زیورات پر ایک سے 17 فیصد، مختلف قسم کے پلانٹس اور مشینری پر پانچ سے 10 فیصد ٹیکس کی تجویز ہے۔
ماچس پر 17 فیصد ٹیکس کی تجویز ہے جبکہ ساشے میں فروخت ہونے والی اشیا کا ٹیکس 8 سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
 پوسٹ کے ذریعے پیکٹ بھیجنے پر 17 فیصد، زرعی بیجوں، پودوں، آلات اور کیمیکل پر 5 سے 17 فیصد، ادویات کے خام مال پر 17 فیصد، درآمدی سبزیوں پر 10 فیصد اور پیکنگ میں فروخت ہونے والے مصالحوں پر 17 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔
ڈیری مصنوعات اور الیکٹرک سوئچ پر 17 فیصد، پراسس کیے ہوئے دودھ پر ٹیکس 10 سے 17 فیصد، پیکنگ میں دہی، پنیر، مکھن، دیسی گھی اور بالائی پر 10 سے بڑھا کر17 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ برانڈڈ مرغی کے گوشت پر بھی 17 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔
اسی طرح 200 سے 500 ڈالر کی قیمت کے درآمد شدہ موبائل فونز پر 17 فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور موبائل فون کمپنیوں کی سروسز پر ایڈوانس ٹیکس میں 10 سے 15 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔
بچوں کے دودھ پر صفر سے 17 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپس پر بھی پانچ فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔
غیر ملکی ٹی وی سیریلز پر 10 لاکھ روپے فی قسط، ڈرامے پر 30 لاکھ روپے جبکہ اشتہارات میں غیرملکی اداکاروں کو دکھانے پر پانچ لاکھ روپے فی سیکنڈ ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔

درسی کتابوں اور سٹریشنری آئٹمز ہر ٹیکس نہیں بڑھایا جا رہا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اس کے علاوہ 1000 سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ٹیکس میں بھی 17 فیصد اضافے جبکہ گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس بھی دگنا کرنے کی تجویز ہے۔
درسی کتابوں اور سٹیشنری آئٹمز ہر ٹیکس نہیں بڑھایا جا رہا۔
منی بجٹ میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مختلف سروسز جیسا کہ ہیلتھ کلبز، جمز اور فٹنس سینٹرز، شادی ہالز اور آٹو ورکشاپس پر پانچ فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔
منی بجٹ میں متعدد اشیا پر ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کی صورت میں لگ بھگ 150 اشیا مہنگی ہو جائیں گی۔

’امیروں کی دی گئی سبسڈی کی قیمت غریبوں سے وصول کی جارہی ہے‘

منی بجٹ کے حوالے سے معاشی امور پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار خرم حسین کا کہنا ہے کہ ’یہ منی بجٹ کسی بھی صورت عوام دوست نہیں ہے۔ اس سے مہنگائی کا بوجھ بڑھے گا۔‘

 تجزیہ کاروں کے بقول ’امیروں کی دی گئی سبسڈی کی قیمت غریبوں سے وصول کی جا رہی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ’آئی ایم ایف گذشتہ 10 برسوں سے پاکستان کی حکومتوں سے ٹیکس اصلاحات کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن ماضی کی حکومتیں اس کے لیے دوسرے راستے نکالتی تھیں۔ اس حکومت نے تین برس میں اس سلسلے میں کوئی کام نہیں کیا، ٹیکس کے حوالے سے یہاں کوئی گروتھ نہیں ہوئی۔‘
’بلکہ انہوں نے ٹیکس اصلاحات کے لیے خود جو کوششیں شروع کی تھیں، انہیں بھی ختم کردیا۔‘
خرم حسین کے مطابق ’حقیقت یہ ہے کہ اس حکومت نے تین برسوں میں امیر طبقے کو جو سبسڈیز دی ہیں، اب ان کی قیمت غریب عوام سے وصول کی جا رہی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہر حکومت آئی ایم ایف کے پروگرام کی طرف جاتی ہے لیکن اس حکومت نے نئے ایریاز تلاش نہیں کیے۔ انہوں نے ضروری اشیا پر ٹیکس لگایا ہے۔‘

شیئر: