Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پاکستان میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے؟

پاکستان میں گذشتہ تین برسوں کے دوران ٹی بی کے مریضوں کی تعداد میں 26 فیصد کمی واقع ہوئی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں گذشتہ تین برسوں کے دوران ٹی بی (تپِ دق) کے مریضوں کی تعداد میں 26 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ 2018 میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد 3 لاکھ 70 ہزار کے قریب تھی جو کم ہو کر 2 لاکھ 77 ہزار رہ گئی ہے۔  
وزارت صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ٹی بی کے سب سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں اب بھی پانچویں نمبر پر ہے، تاہم پاکستان میں مریضوں کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔  
وزارت صحت کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 2018 میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد تین لاکھ 69 ہزار 548 تھی۔ سب سے زیادہ مریض صوبہ پنجاب میں تھے جن کی تعداد 2 لاکھ 20 ہزار، 775 تھی جو 2019 میں کم ہوکر ایک لاکھ 90 ہزار ہوگئی اور اب ایک لاکھ 54 ہزار رہ گئی ہے۔  
صوبہ سندھ میں 2018 میں مریضوں کی تعداد 80 ہزار تھی جو کم ہو کر 66 ہزار رہ گئی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد 43 ہزار تھی جو اب 35 ہزار تک آ گئی ہے۔  
بلوچستان میں 10331 مریض تھے اور اب صوبے میں ان کی تعداد 9500 رہ گئی ہے۔ سابق فاٹا اور کشمیر میں چار، چار ہزار، گلگت بلتستان میں 2100 اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ٹی بی کے ایک ہزار مریض رہ گئے ہیں۔  
ٹی بی کے مریضوں میں 45 فیصد مرد، 41 فیصد عورتیں اور 14 فیصد بچے شامل ہیں۔  
گزشتہ عشرے کے آغاز سے لے کر 2017 تک پاکستان میں ٹی بی کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ 2010 میں ایک لاکھ میں سے 231 افراد ٹی بی کا شکار تھے جو 2017 میں 270 تک ہوگئے اور اب واپسی کی طرف جاتے ہوئے یہ تعداد 265 تک آگئی ہے۔

 'گذشتہ سال ٹی بی کے شبے میں 5 لاکھ 73 ہزار افراد آئے جن میں سے 2 لاکھ 96 ہزار افراد میں ٹی بی کی تشخیص نہیں ہوئی' (فائل فوٹو: پکس فار فری)

 تاہم اس دوران ٹی بی کے باعث ہلاکتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سے قبل سالانہ ایک لاکھ میں سے 34 اموات ٹی بی سے ہو رہی تھیں جو اب کم ہو کر 20 تک آگئی ہیں۔  
ماہرین کے مطابق ٹی بی کے مریضوں کی تعداد میں کمی کی بڑی وجہ بہت سے مریضوں کا رجسٹرڈ نہ ہونا ہے۔ 2019 سے قبل ٹی بی کے مریضوں کی تشخیص کے لیے چیسٹ سکریننگ کیمپس کے انعقاد کے ساتھ ملک کے 15 بڑے ہسپتالوں اور لیڈی ہیلتھ ورکرز سمیت متعدد ذرائع کا استعمال کیا گیا لیکن سال 2020 اور 2021 میں کورونا کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ اس وجہ سے مریضوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔  
پبلک ہیلتھ کیئر کے ماہر ڈاکٹر محمد جمال نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ملک میں عموماً ٹی بی کے مریضوں کی تعداد بتائی گئی تعداد سے دگنا ہوتی ہے۔
'اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری طور پر ٹی بی کے اسی مریض کو گنا جاتا ہے جو ٹی بی کا باقاعدہ علاج شروع کراتا ہے۔ جیسا کہ 2019 میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد پانچ لاکھ 70 ہزار تھی لیکن تین لاکھ 28 ہزار بتائی گئی کیونکہ دو لاکھ 40 ہزار مریض علاج کے لیے رجسٹرڈ نہیں ہوئے تھے۔'
ڈاکٹر محمد جمال کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کا مرض ابتدائی سطح کا ہو معمولی علاج کے بعد وہ صحت مند ہوگئے ہوں۔‘  

ڈاکٹر جمال کے مطابق ’ٹی بی کے مریضوں کی کمی کی ایک وجہ کورونا کے باعث لیے گئے حفاظتی اقدامات ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’ٹی بی کے مریضوں کی کمی کی دوسری وجہ کورونا کے باعث لیے گئے حفاظتی اقدامات ہیں۔ ماسک اور ادویات کا استعمال بھی ممکنہ مریضوں کی تعداد میں کمی لانے کا باعث بن سکتا ہے۔‘  
دوسری جانب نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کا دعویٰ ہے کہ ’پاکستان میں ٹی بی کے علاج میں کامیابی کی شرح گذشتہ دو برسوں میں تین فیصد اضافے کے ساتھ 93 فیصد ہوگئی ہے۔ ٹی بی کے شبے میں جن مریضوں کی سکریننگ کی جاتی ہے انھیں بھی ابتدائی گنتی میں شامل ضرور کیا جاتا ہے لیکن ان میں ٹی بی کی تشخیص نہ ہونے کی صورت میں گنتی سے نکال دیا جاتا ہے۔
 'گذشتہ سال بھی ٹی بی کے شبے میں 5 لاکھ 73 ہزار افراد آئے جن میں سے 2 لاکھ 96 ہزار افراد میں ٹی بی کی تشخیص نہیں ہوئی جبکہ 2 لاکھ 76 ہزار مریض رجسٹر ہوئے اور ان کا علاج کیا گیا۔‘  
ترجمان ٹی بی کنٹرول پروگرام کے مطابق ’گذشتہ برس ٹی بی کے علاج کی کوریج میں نمایاں کمی واقع ہوئی جس کی بڑی وجہ ملک میں کورونا ہیلتھ ایمرجنسی تھی۔

ڈاکٹڑز کے مطابق 'ماسک اور ادویات کا استعمال بھی ممکنہ مریضوں کی تعداد میں کمی لانے کا باعث بن سکتا ہے' (فائل فوٹو: اے ایف پی)

'اس کے باوجود 48 فیصد کورونا کے مریضوں کا علاج کیا گیا جبکہ رواں سال کے لیے ہدف 90 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔‘  
ترجمان کے مطابق ’2035 تک ملک میں ٹی بی کے مرض کے خاتمے کے ساتھ اس بیماری سے اموات کی شرح صفر تک لے جانے کے ہدف کے لیے نہ صرف وفاقی سطح پر بلکہ صوبائی سطح پر بھی ٹی بی کنٹرول پروگرام بڑی کامیابی سے چلائے جا رہے ہیں۔'
 'اب تو عوامی سطح پر بھی ٹی بی کے بارے میں کافی شعور اجاگر ہو چکا ہے اس لیے علاج پر رضامند افراد کی شرح میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔'
یاد رہے کہ پاکستان میں ٹی بی کا مکمل علاج مفت کیا جاتا ہے۔ پاکستان ٹی بی کے مریضوں کے لحاظ سے خطرناک ملک سمجھا جاتا ہے اس لیے خلیجی ممالک میں بسلسلہ روزگار جانے والوں کے لیے ہیلتھ رپورٹ میں ٹی بی کا ٹیسٹ بھی شامل ہے۔  

شیئر: