Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹی بی پر قابو پانے کے لیے مخصوص سینسر

ترقی پذیر ممالک میں ٹی بی کی سب سے زیادہ شرح انڈیا میں ہے (فوٹو:اے ایف پی)
محقیقین نے تپ دق (ٹی بی)  کے مرض پر قابو پانے اور مریضوں کی دوائیوں کی جانچ کے لیے ایک خاص سینسر متعارف کروایا ہے، جو لاکھوں مریضوں کی جان بچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 
اس سینسر کی خاص بات یہ ہے کہ اس کو جسم پر لگانے کے بجائے نگلا جا سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی ریاست کیلیفورنیا میں محقیقین کی جانب سے یہ امید کی جارہی ہے کہ نگلنے والے اس مخصوص سینسر کے ذریعے ٹی بی کے علاج میں انقلابی پیش رفت ہو گی۔
ایک طبی جریدے میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق کیلفورنیا میں 77 مریضوں پر سینسر کے مؤثر ہونے کے حوالے سے آزمائشی تجربہ کیا گیا۔ سینسر نگلنے والے 93 فیصد مریض روزانہ دوائیاں لے رہے تھے، جبکہ 63 فیصد مریض دوائیاں نہیں لے رہے تھے۔
ہر سال تقریباً دس ملین لوگ تپ دق (ٹی بی) کا شکار ہوتے ہیں۔ 2017  کے اعداد و شمار کے مطابق 1.6 ملین لوگ پھیپھڑوں کے دائمی مرض سے ہلاک ہوگئے تھے۔ 

ڈاکٹرز اب وائرلیسلی ابزروڈ تھیرپی سنسر کے ذریعے مریضوں کی نگرانی کر سکیں گے (فوٹو:اے ایف پی)

 مریض ایک چھوٹی سی گولی کے سائز کا سینسر نگلتا ہے، اور مرض سے متعلق جاننے کے لیے ریکارڈنگ کا ایک آلہ مریض کے دھڑ کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے اور مرض سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے اس کو بلو ٹوتھ سے کنکٹ کر دیا جاتا ہے۔
اس عمل کے بعد معالج اپنے فون ایپس کے ذریعے مریضوں کی جانب سے لی گئی ادویات کی نگرانی کرسکتے ہیں۔
کیلی فورنیا یونیورسٹی کے کلینیکل میڈیسین کی پروفیسر سارا براؤن کہتی ہیں ’اگر ہم ٹی بی کو جڑ سے ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو پھر ہمیں کچھ بنیادی چیزوں کو ٹھیک کرنا ہوگا، جیسے کہ مریضوں کا خیال رکھا جائے اور جو مریضوں کا علاج مکمل کرنے میں مدد کرسکیں۔‘
واضح رہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ٹی بی کے مرض سے زیادہ اموات ہوتی ہیں، جس میں انڈیا سرفہرست ہے۔

ماہرین کے مطابق انڈیا کی طرح افریقہ میں بھی ٹی بی کے مریضوں کی شرح زیادہ ہے (فوٹو:اے ایف پی)

سٹیلن بوش یونیورسٹی کے پروفیسر مارک کوٹن کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے  ٹی بی سے زیادہ متاثرہ ممالک مستفید ہو سکیں گے۔
’ہمیں چاہیے کہ ان ممالک میں جہاں ٹی بی کی شرح زیادہ ہو وہاں پر سینسر کے استعمال کا جائزہ لینا چاہیے۔ اس کا جائزہ ہمیں انڈیا اور جنوبی افریقہ میں لینا چاہیے، وہاں دوائیوں کے نسخے پر اکثر جغرافیائی رکاوٹوں، بدنامی کے ڈر اور غربت کی وجہ سے عمل نہیں ہوتا۔‘
وائرلیسلی آبزروبڈ تھیرپی کا سینسر ممکنہ طور پر لاکھوں افراد کی زندگی بچانے کا آلہ بن سکتا ہے۔

شیئر: