Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم، ایک قدم آگے دو پیچھے

پرویز خٹک نے مبینہ طور پر اجلاس سے باہر نکل کرایک تلاطم پیدا کر دیا (فوٹو ٹوئٹر)
گزشتہ ہفتے حکومت کچھ کوشش سے مِنی بجٹ اور دیگر قوانین اسمبلی سے پاس کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ عام حالات میں اس کوایک سیاسی کامیابی سمجھا جانا چاہیے۔
قانون پاس کرانے کا مطلب ہے کہ حکومت نے ایوان میں اپنی عددی اکثریت ثابت کر دی۔ اس کامیابی سے استحکام اور پائیداری کا پیغام جانا چاہیے تھا۔ مگر فوراً ہی عدم استحکام کے اشارے بھی سامنے آنا شروع ہو گئے۔ پارٹی کے باہر اتحادی تو پہلے سے ہی عدم اطمینان کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس دفعہ پارٹی کے اندر سے بھی اختلافی آوازیں نمایاں ہو کر سامنے آئیں۔  
کسی بھی اہم قانون سازی سے پہلے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ایک روایت اور معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔ پارلیمانی لیڈر چاہے حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، اراکین سے رسمی سی ملاقات کرتا ہے اور اس کے بعد پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ ہو جاتا ہے۔
اس دفعہ مگر کچھ مختلف ہوا۔ وزیر دفاع اور سینیئر لیڈر پرویز خٹک نے اپنے سوالات اور پھر مبینہ طور پر اجلاس سے باہر نکل کرایک تلاطم پیدا کر دیا۔
انہوں نے بعد میں تردیدی بیان بھی جاری کیا مگر اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے گیس کے مسئلے پر تلخی ہوئی مگر زیادہ سنجیدہ مکالمہ مبینہ طور پر وزیراعظم اور پرویز خٹک کے درمیان ہوا۔
اس کے ساتھ ہی اسلام آباد کی خبر گاہوں میں اسی ارکان کی حمایت کے دعوں کا بھی ذکر ہوتا رہا اور یہ تجزیے بھی گردش میں رہے کہ تحریک انصاف کے چار ’درویشوں‘ میں سے پرویز خٹک نے پہل کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کے سیاسی سٹاک کو ایک ہی دن میں کافی جھٹکا لگ گیا۔  
یہی ایک قدم آگے اور دو پیچھے کا ٹرینڈ اس حکومت اور اس سے ملحق سسٹم کے ساتھ چل رہا ہے۔ مِنی بجٹ سے ایک قدم آگے مگر پرویز خٹک کے اعتراضات کی ٹائمنگ سے دو قدم پیچھے۔
اس سے پہلے ای وی ایم کے قانون کے پاس ہونے کے ساتھ  نوٹیفیکیشن کےمعاملے پر ہوئی غیریقینی صورتحال کچھ بہتر ہوئی مگر پھر فارن فنڈنگ کیس سے دو قدم پیچھے کا مرحلہ آ گیا۔
اگر الیکشن کومقبولیت کا پیمانہ سمجھا جائے تو پنجاب میں متواتر ہونے والے ضمنی انتخابات سے تو پی ٹی آئی کی اب غالباً دلچسپی ہی ختم ہو گئی ہے مگرخیبر پختونخوا کے ضلعی الیکشن سرپرائز نہیں شاک ثابت ہوئے اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب اپوزیشن کی طرف سےکوئی خاص جارحیت بھی نظر نہیں آ رہی۔

رانا شمیم کے بیان حلفی کا معاملہ بھی ن لیگ کے کیس میں کوئی خاص جان نہیں ڈال سکا (فوٹو اے ایف پی)

رانا شمیم کے بیان حلفی کا معاملہ بھی ن لیگ کے کیس میں کوئی خاص جان نہیں ڈال سکا اور احتجاج تحریک پر بھی تاریخیں ہی دی جا رہی ہیں۔ وہ بھی غالباً دیکھ رہے ہیں کہ ان کے کچھ نہ کرنے کے باوجود بھی حکومت کے ہر اگلے قدم کے ساتھ کوئی قدم پیچھے کے طرف ضرور ہوتا ہے۔  
یہ ٹرینڈ سیاست کے ساتھ ساتھ گورننس میں بھی نمایاں ہے۔ مہنگائی تو خیر اب مستقل موضوعِ گفتگو ہے مگر کبھی مسئلہ گندم کی عدم دستیابی کا ہوتا ہے اور کبھی کھاد کا۔
 اس کے ساتھ مری میں ہلاکتوں جیسا واقعہ صوبائی گورننس پر اٹھے ہوئے سوالوں کو اورنمایاں کر دیتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ اب بھرنے کے قریب ہے۔ اس کی وجہ بھی ظاہر ہے۔ ساڑھے تین سال کےبعد گورننس میں ناکامی کا الزام پچھلی حکومتوں پر ڈالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی دوران صحت کارڈ پر حکومت کی طرف سے مثبت مہم ضرور نظر آتی ہے مگر اس کا ذکر اسی وقت ہوتا ہے جب کوئی بحرانی خبر نہ آئے۔
پچھلے کچھ سال کا ریکارڈ البتہ یہی اظہارکرتا ہے کہ چاہے اندرونی مسائل ہوں یا بیرونی، کوئی نہ کوئی بحران سامنے ضرور آ جاتا ہے۔ مزید بحران سے نمٹنے والی تمام ٹیم لاہور کے بجائے اسلام آباد وفاقی حکومت میں ہی پائی جاتی ہے جو بذات خود مسئلے کی ایک علامت ہے۔  
سیاست اور گورننس کے ساتھ اقتصادی میدان میں بھی امید و بیم کی سی صورتحال ہے۔ فی الحال یہی استحکام ہے کہ اقتصادی ٹیم یعنی وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بنک کم از کم اپنی جگہ مستحکم ہیں مگر سابقہ ریکارڈ کو دیکھا جائے تو کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

اپوزیشن نے بھی اسی امید میں اب تبدیلی کے ’ہر ممکن طریقے‘ کا ذکر شروع کر دیا ہے (فوٹو اے ایف پی)

قیمتوں میں کمی کا امکان بھی نظر نہیں آرہا اور وسط مدتی ٹیکسوں کے محدود اثرات کا ذکر اپنی جگہ مگر اس امر پریقین مشکل ہے کہ  مہنگائی کی لہر صرف درآمدات پر مرکوز رہے گی۔ دوسری طرف توانائی کے مسائل تو حکومت کے اپنے مطابق طویل مدتی اور دائمی ہیں۔ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں کو لگے ہوئے پر ان کو اوپر سے اوپر اڑائے لے جا رہے ہیں۔ 
2022 کا آغاز ان اندیشوں کے ساتھ ہوا تھا کہ اگلے تین مہینے نازک ہیں۔ دو ہفتے کے دوران میں ہونے والے واقعات سے ’نازکی‘ کے اس تاثر کو تقویت ہی ملی ہے۔ اگلے آنے کچھ مہینے اہم ترین اس لیے ہیں کہ اس کے بعد تو ان ہاؤس تبدیلی کا آپشن ختم ہو جائے گا اور توجہ ہوگی اگلے الیکشن اور اس کی صف بندیوں پر۔
اپوزیشن نے بھی اسی امید میں اب تبدیلی کے ’ہر ممکن طریقے‘ کا ذکر شروع کر دیا ہے۔ چاہے وہ اس میں کامیاب ہوں یا ناکام مگر یہ امر تو واضح ہے کہ حکومت کی رفتار اسی طرح ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے ہی رہے گی۔ 

شیئر: