Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حکومت کو چائلڈ پورنوگرافی کی سزا 14 سال سے 20 سال تک کرنے کی ہدایت‘

عدالت نے مجرم شہزاد خالق کی 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا برقرار رکھی ہے۔ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو پیکا ایکٹ میں ترمیم کر کے چائلڈ پورنوگرافی کی سزا 14 سال سے 20 سال تک کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سنیچر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے چائلڈ پورنوگرافی کے مجرم شہزاد خالق کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کر دی۔
عدالت نے مجرم شہزاد خالق کی 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا برقرار رکھی ہے۔
عدالت نے مجرم کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کرنے کی وجوہات پر مشتمل 24 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ بھی جاری کیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چائلڈ پورنوگرافی کے کیسز میں انٹرنیشنل سٹینڈرڈز کو فالو کرنے کے لیے گائیڈ لائنز بھی جاری کر دیں ہیں۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’پیکا ایکٹ کے تحت چائلڈ پورنوگرافی کی سزا سات سال جبکہ پاکستان پینل کوڈ میں 14 سال ہے۔‘
’حکومت پیکا ایکٹ میں ترمیم کر کے چائلڈ پورنوگرافی کی سزا 14 سال سے 20 سال تک کرے۔‘
فیصلے میں ہدایت کی گئی ہے کہ ’متاثرہ بچے کو عدالت میں ملزم کے ساتھ پیش نہ کیا جائے اور بیان وڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کیا جائے۔‘
’اگر وڈیو ثبوت کی فرانزک ایجنسی سے تصدیق ہو جائے تو چائلڈ پورنوگرافی اور جنسی جرائم کے متاثرین کو عدالت بلانے کی ضرورت نہیں۔‘
عدالتی فیصلے کے مطابق ٹرائل کورٹس اس بات کو یقینی بنائیں کہ ’چائلڈ پورنوگرافی کے کیسز کا ان کیمرا ٹرائل کیا جائے۔‘
واضح رہے کہ چائلڈ پورنوگرافی کے بین الاقوامی قوانین کے حوالہ جات بھی مجرم کی اپیل خارج کرنے کے تحریری فیصلے میں شامل ہیں۔
سزا یافتہ مجرم شہزاد خالق خلاف کو سیشن کورٹ نے 2 ستمبر 2020 کو پاکستان پینل کوڈ کی تین دفعات کے تحت سزائیں سنائی تھیں۔
عدالت نے ان کی نازیبا وڈیوز بنا کر بلیک میل کرنے پر پانچ سال قید اور اسلحہ دکھا کر جان سے مارنے کی دھمکیوں پر دو سال قید کی سزا بھی برقرار  رکھی ہے۔
خیال رہے کہ شہزاد خالق کے خلاف متاثرہ بچے کے والد کی شکایت پر پولیس نے 25 اگست 2019 کو مقدمہ درج کیا تھا۔

شیئر: