’میں اس تأثر کے خلاف ہوں کہ پشتون یا قبائل خواتین کی عزت نہیں کرتے، ان کو باہر نہیں جانے دیتے یا تعلیم کے خلاف ہیں۔ ہمارے لوگ تو فخر کرتے ہیں کہ ہماری بہن بیٹی میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے لیے کھڑی ہو سکتی ہے۔‘
یہ کہنا ہے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون صحافی رضیہ محسود کا جنھوں نے اب علاقے اور قبیلے کی پہلی خاتون سیاست دان بننے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ وہ خیبر پختونخوا کے دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا سے سب ڈویژن لدھا کے لیے تحصیل چیئرپرسن کا الیکشن لڑیں گی۔
مزید پڑھیں
-
پاکستانی خواتین اراکین پارلیمنٹ کی کارکردگی مردوں سے بہترNode ID: 547101
-
طالبان کا کابل میں خواتین کے احتجاج کے دوران صحافیوں پر تشددNode ID: 611221
اس مقصد کے لیے انھوں نے علاقے کے معروف سیاست دان شاہ جی گل آفریدی کی نئی سیاسی جماعت تحریک اصلاحات پاکستان میں شمولیت اختیار کی ہے۔
تحریک اصلاحات پاکستان نے انھیں انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ بھی جاری کر دیا ہے۔
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں رضیہ محسود نے بتایا کہ وہ تقریباً پانچ چھ برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور اب انہوں نے سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
رضیہ محسود علاقے سے پہلی خاتون صحافی ہی نہیں بلکہ ان کے خیال میں محسوس قبیلے سے باقاعدہ انتخابات میں حصہ لینے والی وہ پہلی خاتون ہیں۔
رضیہ محسود کا کہنا ہے کہ انہوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے اور اس میں ان کے خاندان کی مرضی بھی شامل ہے۔
’جب میں بطور صحافی اور سوشل ورکر کام کرتی ہوں تو علاقے کی روایات اور ثقافت کا خیال رکھتی ہوں۔ لوگ میرے کام کو پسند کرتے ہیں۔ اس کا فیڈ بیک جب میرے گھر پہنچتا ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں بلکہ فخر کرتے ہیں۔‘

قبائل میں رہ کر ایک خاتون سیاست میں آئے گی تو اسے معاشرے میں کس نظر سے دیکھا جائے گا؟ اس حوالے سے رضیہ محسود نے کہا کہ قبائلی لوگ اس طرح کے نہیں ہیں جس طرح سے انہیں نیشنل میڈیا پر یا ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں پیش کیا گیا ہے، قبائل مرد خواتین کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’یہی وجہ ہے کہ جب میں نے سیاست میں آنے کا اعلان کیا تو سوشل میڈیا پر موجودہ قبائل کے اضلاع کے بھی مشران میرے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوئے اور سپورٹ کیا۔‘
رضیہ محسود نے کہا کہ ’ہمارے علاقے میں ہمارے مرد اتنی مشکلات کا شکار ہیں۔ ہم پر کتنے عجیب سے حالات آئے کتنی مشکلات سے ہم گزرے۔ ہمارے لوگ سہولیات سے محروم ہیں۔ اس کے باوجود خواتین اگر سامنے آ رہی ہیں تو یہ ان لوگوں کی سپورٹ کی وجہ سے ہی ہو رہا ہے۔ اگر وہ نہ چاہیں تو کوئی خاتون بھی باہر نہ نکلے۔‘
سیاست کے میدان مں مشکلات سے متعلق سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’میں یہ سوچ کر نکلی ہوں کہ مشکلات ہوں گی، تکالیف بھی ہوں گی۔ لیکن وہ کامیابی کیا کامیابی ہے جو مشکلات اور تکالیف سے گزر کر نہ ملے۔ میرے خیال میں مشکلات تو ہوتی ہیں اور ان ساری چیزوں کا مجھے سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر انسان میں ہمت حوصلہ اور لگن ہو تو یہ سب خود بخود ختم بھی ہو جاتی ہیں۔‘

جب رضیہ محسود سے پوچھا گیا کہ وہ کیا مقاصد لے کر سیاست میں حصہ لے رہی ہیں تو انھوں نے کہا کہ وہ قبائلی خواتین کو زبان دینا چاہتی ہوں اور انہیں راہ دکھانا چاہتی ہیں۔
’ان کو بتانا چاہتی ہوں کہ 52 فیصد آبادی گھر بیٹھ جائے تو پھر اس کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ہمارے پاس تعلیم صحت، انفراسٹرکچر کے مواقع نہیں ہیں لیکن ہمیں اس کے لیے جدوجہد کرنی ہے اور خواتین کو آگے آنا ہوگا۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جن قبائلی علاقوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں خواتین کو گھروں سے نہیں نکلنے دیا جاتا وہاں کی خواتین اگر سیاست میں آئیں گی تو دنیا میں یہ مثبت پیغام جائے گا کہ اگر قبائلی اضلاع کی خواتین اور لڑکیوں کو مواقع دیے جائیں تو وہ اپنا لوہا منوانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
رضیہ محسود نے کہا کہ انہیں تعلیمی اداروں میں بہتری لانے، گوسٹ سکولوں اور اساتذہ کے بجائے حقیقی تعلیمی ادارے اور تعلیم کو فروغ دینے کے لیے کام کرنا ہے، والدین بچیوں کو سکول تو بھیجنا چاہتے ہیں لیکن جب سکول ہی نہ ہوں تو وہ کہاں جائیں؟
