Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آہ! حسن عسکری طارق،سراپا انکسار ، باغ وبہار

ان کی روایتی شفقت ومحبت اور دیگر بے شمار خوبیاں انہیں ہردلعزیز بنائے ہوئے تھیں

----------

نعیم بازیدپوری۔جدہ

- - - - - -  -- -  -

حسن عسکری طارق،گزشتہ دنوں راہیٔ ملک عدم ہو گئے، اک فردِ لاجواب تھے،سراپا انکسار ، باغ وبہار۔ حسن عسکری طارق کویہ کہتے ہوئے تامل سا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ہم میں نہیں رہے مگر:
موت ہے سرِبقائے زندگیٔ جاوداں
زندگی ہے موت کے سانچے میں ڈھل جانے کا نام
یا پھر
ہر سانس ایک پھانس ہے قلبِ وجود میں
دستِ قضا نہ ہو تو پھنسی کی پھنسی رہے
حسن عسکری کے ساتھ بھی دست قضا نے ہاتھ دکھایا۔ اب ایک کہانی ختم ہوئی۔ حسن کو میںنے ہمیشہ اپنے بڑے بھائی کے طور پر دیکھا اور محسوس کیا۔ انہوں نے بھی برادرانہ شفقت مجھ پر نثار کرنے میں کبھی کوئی کنجوسی نہیں کی۔ یاد پڑتا ہے کہ ان سے پہلی ملاقات ان کے برادر نسبتی مولانا عبداللہ عباس ندوی کے گھر پر ہوئی تھی پھر میرے ایک اور عزیز انجینیئر شمیم احمد خان کے طفیل ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو سال رواں تک جاری رہا۔ مدینہ منورہ میں روضہ رسول پر پہلی حاضری کی سعادت ملی تو حسن عسکری ریاض الجنہ میں عبادت اور ریاضت میں مصروف نظرآئے۔ تسبیح و تحلیل سے فارغ ہوئے تو عشاء کی نماز کا وقت ہو گیا او رنماز عشاء کے بعد انہوں نے مجھے کمال شفقت سے اپنے ساتھ گھر چلنے کو کہا۔ اس وقت وہ سعودی محکمہ ٹیلی فون میں انجینیئر کے طور پر کام کر رہے تھے اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے انجینیئر کے ہمراہ رہتے تھے۔ شمیم احمد خان بھی مدینہ منورہ جاتے تو زیادہ تر انہی کے ساتھ قیام کرتے۔جب تعلقات کی ڈور ذرامضبوط ہوئی تو میں نے بھی مدینہ منورہ میں روضہ رسول پر حاضری کے بعد حسن عسکری طارق سے ملاقات کو نہ صرف ضروری بلکہ معمول بنا لیا۔ اس زمانے میں مدینہ منورہ میں ڈاکٹر انصرام بھی موجود تھے جو اللہ کریم کی رحمتوں کے طفیل اب تک مدینہ منورہ میں ہی قیام پذیر ہیں۔ میںجہاں بھی جاتا طارق عسکری صاحب کی ہردلعزیزی ان کے خلوص اور محبت کے واقعات زیادہ وضاحت اور صراحت کے ساتھ سامنے آتے اور کیوں نہ آتے جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے برادر نسبتی ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی بھی راقم الحروف کو بھائی سمجھتے اور بھائیوں کی طرح ہی عزیز رکھتے تھے تو ان کی نگاہ ِمحبت مجھ پر کچھ او رمہربان رہنے لگی۔ برسوں کے تعلقات کے بعد عسکری صاحب کی قیامگاہ پر اپنے وقت کے جید عالم دین اور مذہبی اسکالر علی میاں سے ملنے کا شرف بھی حاصل ہوا جس پر میں آج بھی ناز کرتا ہوں۔ مولانا ابوالحسن ندوی عرف علی میاں نہ صرف ہند کے بلکہ پوری اسلامی دنیا کے جید عالم تھے او رمذہب کے باریک نکات پر ان کی آراء انکی ژرف نگاہی کا ثبوت فراہم کرتی تھیں۔ ایک دنیا جن میں مدینہ منورہ کے علمائے کرام ، شیوخ اور اساتذہ کرام کی بڑی تعداد شامل تھی ،یہی خواہش رکھتی تھی کہ علی میاں ان کے یہاں ہی قیام کریں لیکن علی میاں نے ہمیشہ حسن عسکری طارق کے غریب خانے پر قیام کو ہی ترجیح دی۔ حسن عسکری طارق بظاہر کوئی عالم دین نہیں تھے ،وہ ٹیلی فون جیسے خالص فنی اور تکنیکی شعبے میں بھی کمال رکھتے تھے مگرجاننے و الے جانتے ہیں کہ وہ اس فقیرانہ انداز کے باوجود ایک داعیٔ اسلام تھے او راکثر فروعی مسائل کے لئے ہم جیسے لوگ ان سے رجوع کرتے رہتے تھے اورطمانیت قلب اور فکری آسودگی حاصل کرتے تھے۔ حسن عسکری طارق نے مدینہ منورہ میں رہنے کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ محسوس یہ ہوتا تھا کہ رحمت بھی ان پر مہربان ہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک خاص بلکہ مخصوص مرتبے پر فائز نظر آتے تھے ۔وہ حرم شریف جاتے تو نہ صرف اپنے لئے بلکہ تمام عزیز و اقارب او رملنے جلنے والوں کے لئے باقاعدہ دعائے خیر کرتے۔ جنت البقیع کی طرف بھی انہیں بڑی رغبت تھی۔وہ ریاض الجنہ میں اپنا زیادہ وقت گزارتے تھے ۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ منبر رسول کے قریب تر بیٹھیں اور نماز پڑھیں۔ صحت بہت اچھی نہیں تھی ۔ وہ ہمیشہ سے دبلے قد کاٹھ کے آدمی رہے مگر اس کے باوجود تہجد گزاری کا سلسلہ برابر قائم رہا۔ اللہ کریم انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، آمین۔

شیئر: