Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیرون ملک ملازمت کے خواہش مند افراد کو قرضہ دیں گے:ایوب آفریدی

وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے اوورسیز پاکستانیز ایوب آفریدی نے کہا ہے کہ وہ افراد جو ملازمت کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس وسائل نہیں ہیں، ان کے لیے سود سے پاک ’کامیاب اوورسیز‘ کے نام قرضہ سکیم لا رہے ہیں تاکہ ان کو اپنی زمین یا زیور بیچ کر ٹکٹوں اور ویزوں کے پیسے ادا نہ کرنا پڑیں۔ 
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں ایوب آفریدی نے کہا کہ ’کورونا کی وجہ سے بیرون ملک جانے والے افراد کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت کے تین سال میں 11 لاکھ لوگ ملازمت کے لیے بیرون ملک گئے جو ماضی کی نسب کم تعداد ہے۔ ہم اس کو بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ابھی کورونا کے حوالے سے معاملات حل ہو رہے ہیں تو ہم نے اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی کانفرنس بلائی۔ ہم نے ان کو ایوارڈ بھی دیا ان کو سراہا بھی اور ان کو ہم نے ہدف دیا اور یہ ہدف اتفاق رائے سے بنایا کہ 2022 میں ہم ایک ملین یعنی دس لاکھ لوگ بیرون ملک بھیجیں گے۔‘
’ہم خلیجی ممالک میں بھی اور دیگر ممالک میں جہاں پر مواقع موجود ہیں وہاں بھیجیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 2022 ایک اوورسیز سال ہوگا جس میں سب سے زیادہ لوگ باہر جائیں گے۔‘
مشیر برائے اوورسیز پاکستانیز ایوب آفریدی کے مطابق ’بیرون ملک جو لوگ جاتے ہیں ان کے پاس وسائل نہیں ہوتے۔ یہ ٹکٹ کے لیے ویزوں کے لیے بڑی مشکلات میں ہوتے ہیں۔ یہ یا زمین بیچتے ہیں یا اپنی خواتین کے زیورات بیچتے ہیں یا سود پر پیسے لیتے ہیں۔ ابھی یہ سکیم لانچ کر رہے ’کامیاب اوورسیز‘ کے نام سے کہ جو بھی بیرون ملک جائے گا خاص طور پر غیر ہنر مند افراد، ان کو ہم دو لاکھ سے لے کر پانچ لاکھ تک فری قرضہ دیں گے۔ یہ قرضہ تین سالوں کے لیے ہوگا اور اس پر سود نہیں ہوگا۔‘
’اس سے ان کو یہ فائدہ ہوگا کہ نہ ان کو زمین بیچنا پڑے گی نہ زیور بیچنا پڑے گا اور نہ ہی سود پر قرض لینا پڑے گا۔

ایوب آفریدی نے بتایا کہ ’حال ہی میں سعودی عرب کے وزیر داخلہ کے دورہ پاکستان میں ان کے ساتھ پاکستانی ورکرز کو درپیش مسائل کا معاملہ اٹھایا (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

مشیر برائے اوورسیز نے کہا کہ ’بیرون ملک جانے والوں کی جو تنخواہ ہوگی وہ باضابطہ طور پر اکاونٹ میں ٹرانسفر ہوگی۔ ہمارے ملک کو بھی فائدہ ہوگا۔ تین سالوں میں ہم ان کی تنخواہ سے بہت معمولی رقم کی کٹوتی کیا کریں گے۔ زیادہ تر پیسے ان کے خاندان کو ہی جائیں گے۔ اس سے کافی حد تک اوورسیز جانے والوں کے مسائل حل ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’اس کے لیے اتنی رقم ہوگی جتنی باہر جانے والے کو ضرورت ہوگی۔ کیونکہ یہ بڑے غریب لوگ ہیں جو امپلائر ویزہ پر باہر جائے گا جس کے پاس کمپنی کا ایمپلائمنٹ ویزہ ہوگا تو وہ بندہ قرضہ لے سکتا ہے۔ یہ پیسے دینے والے بینک ہوں گے حکومت یا وزارت کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔‘
’حکومت اس قرضے پر بینکوں کو سود ادا کرے گی اور قرضہ لینے والے کو سود ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس قرضے کے حصول اور دیگر معاملات کے حوالے سے میکانزم بنا رہے ہیں۔‘
ایوب آفریدی نے کہا کہ ’اوورسیز پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ زمینوں کا اور قبضہ گروپوں کا ہے۔ اس کے علاوہ جو باقی مسائل ہیں بہت کم ہیں اور بڑی آسانی سے حل بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ ایسا مسئلہ ہے کہ ہماری حکومت کے ہاتھ میں ہوتا نہیں ہے۔ ایک دفعہ جب قبضہ ہو جاتا ہے تو یہ قبضہ گروپ والے عدالت میں چلے جاتے ہیں۔ پھر عدالتیں تو اپنے طریقے سے چلتی ہیں اور بدقسمتی سے ہمارا عدالتی نظام سست روی کا شکار ہے۔ بیرون ملک رہنے والا بندہ اتنا فالو اپ ہی نہیں کر سکتا ہے۔

ایوب آفریدی نے کہا کہ ’بیرون ملک جانے والوں کی جو تنخواہ ہوگی وہ باضابطہ طور پر اکاونٹ میں ٹرانسفر ہوگی۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے کہا کہ ’اس مسئلے کے حل کے لیے ہم نے وزیراعظم سے بات کی اور انہوں نے ہمیں اجازت دی۔ ہم نے وزارت قانون میں اس کے لیے ایک مسودہ قانون تیار کیا کہ ہم اوورسیز کی عدالت بنائیں گے۔ اس کے اوپر کام بہت قریب پہنچ چکا ہے آئندہ اجلاس میں ہماری کوشش ہے کہ کابینہ سے منظور کرا کے بہت جلد اس کے لیے علیحدہ عدالتیں بنائیں گے۔‘ 
’اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ جو ابتدائی فیصلہ ہے وہ 60 دنوں میں آئے گا۔ اس کے بعد اپیلوں کا پروسیس ہوگا۔ بہرحال 180 دن میں سارا معاملہ ختم ہوگا اور فیصلہ آئے گا۔ اس سے اوورسیز کو بہت فائدہ ہوگا اور زمینوں پر قبضوں کے تنازعات حل ہوں گے۔ ان کو خصوصی عدالتوں سے فائدہ ہوگا۔
اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اور وہاں مقیم پاکستانیوں سے ملاقاتوں کے حوالے سے مشیر برائے اوورسیز پاکستانیز نے کہا کہ ’یہ دورہ اس لحاظ سے کامیاب تھا کہ کمیونٹی کے افراد سے براہ راست ملاقاتیں ہوئیں اور ان کے مسائل سمجھنے میں مدد ملی۔‘
’سعودی عرب میں کمیونٹی سے بات چیت میں پتہ چلا کہ وزیراعظم عمران خان کے نوٹس اور سفیر سمیت عملے کے دیگر افراد کے خلاف کارروائی سے سفارت خانے کا ماحول، کارکردگی اور رویہ بہتر ہوگئے ہیں۔ ان کے بارے میں مزید کوئی شکایت سامنے نہیں آئی بلکہ خوشی کی بات ہے کہ تعریف سننے کو ملی۔‘
ایوب آفریدی کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ’جوں وہاں پر میں بھی سمجھتا ہوں کہ ایک مسئلہ ہے اور شکایت بھی کی گئی کہ (مدینہ) میں ہمارا پاسپورٹ آفس ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے بے چارے مدینہ والے، جدہ جو تین چار سو کلومیٹر دور ہے وہاں پاسپورٹ کے لیے جاتے ہیں۔ مدینہ میں ہمارا پاکستان ہاؤس موجود ہے۔ ہم اس پر کام کر رہے کہ وہاں پر نادرا کا آفس بھی ہے تو پاسپورٹ آفس بھی کھول دیں۔‘

ایوب آفریدی کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارا عدالتی نظام سست روی کا شکار ہے (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

ایوب آفریدی نے بتایا کہ ’حال ہی میں سعودی عرب کے وزیر داخلہ کے دورہ پاکستان میں ان کے ساتھ پاکستانی ورکرز کو درپیش مسائل کا معاملہ اٹھایا کہ کورونا کی وجہ سے بہت سے پاکستانیوں کی تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہے۔ جس پر انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ سعودی حکومت پاکستانی ورکرز کے بقایا جات اور تنخواہوں کی بروقت ادائیگیوں کے لیے ان کی متعلقہ کمپنیوں سے بات چیت کر کے مسئلہ حل کرے گی۔‘ 

شیئر: