Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان طالبان کا کوئی متبادل نہیں، مل کر کام کرنا ہوگا: عمران خان

نے کہا کہ ’ہمارا ماننا ہے کہ ایک مستحکم افغانستان مستحکم پاکستان کا باعث بنے گا۔‘ (فائل فوٹو: سی این این)
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکہ کے عوام کو سمجھنا چاہیے کہ طالبان کو ناپسند کرنا اور بات ہے لیکن وہاں کے چار کروڑ لوگ بدترین حالات کا شکار ہیں۔ انہیں سنگین انسانی بحران کا سامنا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اتوار کو امریکی ٹی وی سی این این کے اینکر فرید زکریا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’ابھی افغانستان میں طالبان کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ واحد متبادل یہی ہے کہ ان کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔‘
’اگر ان پر پابندیاں لگائی جائیں گے، ان کا بینکنگ سسٹم منجمد کیا جائے گا تو یہ مزید خرابی کا باعث بنے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا ماننا ہے کہ ایک مستحکم افغانستان مستحکم پاکستان کا باعث بنے گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’جلد یا بدیر طالبان کی حکومت کو بہرحال تسلیم کرنا ہوگا۔ دنیا انہیں تسلیم کرنے سے قبل کچھ شرائط رکھے گی۔‘
’ان (طالبان) کی تحریک بہت مضبوط نظریاتی پس منظر رکھتی ہے جو مغربی ممالک کے کلچر کی نسبت ایک اجنبی چیز ہے۔ لیکن ان پر پابندیاں لگانا حالات کو مزید خرابی کی طرف لے جائے گا۔‘
’امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ (وار آن ٹیرر) نے مزید دہشت گرد پیدا کیے ہیں۔‘
’اس جنگ کے دوران جو ڈرون حملے ہوئے، جو بم گرائے گئے اس میں بہت زیادہ عام لوگ بھی مارے گئے۔ پھر اس کے بعد پاکستان میں خودکش دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں ہمارے لگ بھگ 80 ہزار لوگ مارے گئے۔‘

عمران خان نے کہا ہے کہ ’امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ (وار آن ٹیرر) نے مزید دہشت گرد پیدا کیے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

سی این این کے میزبان کی کے ایغور مسلمانوں سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنے سفیر کو سنکیانگ بھیجا۔ ان کے مطابق وہاں صورتحال ویسی نہیں جو بتائی جا رہی ہے۔‘
’کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف مسلسل ظلم و ستم ہو رہا ہے۔ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا وہ تو جنگی جرائم ہیں۔‘
کیا آپ ایغوروں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی مذمت کریں گے؟ اس سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اگر میں مغربی میڈیا پر یقین کروں تو وہ کچھ اور کہتا ہے جبکہ چین کا موقف دوسرا ہے، ہم کس پر یقین کریں۔ ہمارے چین میں سفیر نے جو ہمیں بتایا ہے وہ مغربی میڈیا کی رپورٹنگ سے مختلف ہے۔‘

شیئر: