Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کارکردگی یا تشہیر؟ ماریہ میمن کا کالم

کیا اسی طرح جناب عثمان بزدار اور جناب محمود خان بھی وزرا کا ٹیسٹ لے کر ان میں اسناد تقسیم کریں گے؟ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
وزیراعظم نے اعلیٰ کارکردگی والی وزارتوں کو اعزازات سے نوازا ہے۔ اولین نمبروں پر آنے والے وزرا کی تحسین کی گئی ہے۔ دوسری طرف ٹاپ ٹین میں جگہ نہ بنانے والے وزیر خارجہ نے باقاعدہ تحریری طور پر اس درجہ بندی پر اعتراض بھی کیا ہے۔
جو وزارتیں آخری نمبروں پر آئی ہیں ان کے وزرا کے ساتھ کیا سلوک ہوگا یہ البتہ ابھی تک واضح نہیں ہوا۔ رینکنگ کرنے والے بھی وزیراعظم کے ہی معاون خصوصی ہیں جن کے مطابق یہ درجہ بندی کارکردگی کے معاہدوں یا پرفارمنس ایگریمنٹس کے مطابق کی گئی ہے اور یہ سارا عمل گویا گورننس میں بہتری کی طرف ایک سنگ میل رکھتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا گورننس میں واقعی بہتری آ چکی ہے۔ ان معاہدوں اور ان کے اہداف کے بارے میں سوالات اپنی جگہ ہیں کہ کیسے تعین ہوا کہ جو اہداف دیے گئے وہ واقعی حقیقت پسندانہ تھے یا پھر اس بات سے قطع نظر کہ یہ وفاقی وزارتوں سے متعلقہ تھے جبکہ عوام کے لیے براہ راست گورننس صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے جن کے بارے میں ابھی درجہ بندی سامنے نہیں آئی۔ 
سوال یہ بھی ہے کہ جس طرح وفاقی حکومت کے سربراہ یعنی وزیراعظم نے بذاتِ خود تمام وزرا کی کارکردگی کو مانیٹر کیا ہے، کیا اسی طرح جناب عثمان بزدار اور جناب محمود خان بھی وزرا کا ٹیسٹ لے کر ان میں اسناد تقسیم کریں گے؟ مگر سوال پھر یہ ہوگا کہ ٹیسٹ لینے والوں کا ٹیسٹ کون لے گا؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ حکومت کا بحیثیت مجموعی ٹیسٹ عوام لیتے ہیں اور وہ وقت ہوتا ہے عام انتخابات کا۔ بالکل اس میں کوئی شک نہیں مگر وہی عوام جو ہر پانچ سال بعد ووٹ ڈالتے ہیں وہ درمیان کے عرصے میں حکومت کے بارے میں رائے عامہ بناتے ہیں، کبھی مسائل کے اظہار کی صورت میں اور کبھی پچھلی حکومت سے تقابل کی صورت میں۔ 

ٹاپ ٹین میں جگہ نہ بنانے والے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے باقاعدہ تحریری طور پر اس درجہ بندی پر اعتراض بھی کیا ہے۔ (فائل فوٹو: دفتر خارجہ)

سوال یہ ہے کہ حکومت کے بارے میں راۓ عامہ کیا ہے؟ پی ٹی آئی کی اندھا دھند حمایت کرنے والے جانثار بھی اب حکومت کی کارکردگی کے بارے میں زیادہ گفتگو سے پرہیز کرتے ہیں۔ حکومت نے البتہ اس رائے عامہ کو ہموار کرنے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ زیادہ زور کارکردگی پر نہیں بلکہ تشہیر پر ہے۔ حالیہ اعزازات بھی اسی تشہیر کی ایک کڑی ہیں۔ 
سوال یہ بھی ہے کہ اگر کارکردگی حقیقی ہو تو کیا اس کو اس قدر تشہیر کی ضرورت پڑتی ہے؟ حکومت کی طرف اس کا جواب یقیناً یہ ہوگا کسی بھی سیاسی حکومت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے منصوبوں اور اپنے پرفارمنس سے عوام کو آگاہ رکھے۔
یقیناً اس امر میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو اپنے اقدامات کی تشہیر کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ یہ نہ ہو کہ کارکردگی پیچھے رہ جائے اور تشہیر آگے نکل جائے۔ فی الحال تو ایسے گمان ہوتا ہے جیسے مارکیٹنگ ہی اصل کارکردگی ہے ۔ اس ایک بڑی وجہ شاید ہماری سیاست میں بیانیے یا narrative کی عملداری ہے۔ بیانیے کی یہ جدوجہد سیاست سے حکومت میں آ چکی ہے۔ کارکردگی نہیں کارکردگی کا بیانیہ زیادہ ضروری ہے۔ 

وزیراعظم نے اعلیٰ کارکردگی والی وزارتوں کو اعزازات سے نوازا ہے۔ اولین نمبروں پر آنے والے وزرا کی تحسین کی گئی ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

حکومت کی مدت کا دو تہائی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران عوام کو، عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے ذرائع ابلاغ کو اور غیر جانبدار مبصرین کو کارکردگی کا کم و بیش اندازہ ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں وسائل محدود اور مسائل لامحدود ہیں مگر یہ بات بھی عیاں ہے کہ حکومتی زعما نے اپنے آپ کو یہ یقین دلا لیا ہے کہ ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کی ان کی کارکردگی عوام تک پہنچ نہیں رہی۔ ان کے گمان میں شاید ہو مگر سامنے کم از کم ایسا کوئی ادراک نہیں کہ ان کی پرفارمنس خصوصاً صوبائی حکومتوں کی سطح پر کافی مایوس کن ہے۔ 
اس حکومت میں کسی بھی حالیہ حکومت سے زیادہ عہدوں کی ذمہ داری تشہیر سے متعلق ہے۔ وزیراعظم خود کثرت سے عوام سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی وزرا متحرک ہیں۔ ہر وقت عوام کو حکومت کے اقدامات اور بیانیے سے آشکار کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود اگر رائے عامہ ہموار نہیں ہو رہی تو شاید مسئلہ تشہیر میں نہیں بلکہ کارکردگی میں ہے۔

شیئر: