Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن کی سٹریٹیجی بس آئیں بائیں شائیں، ماریہ میمن کا کالم

اپوزیشن کے حالیہ اجلاس میں واضح حکمت عملی سامنے نہیں آئی (فوٹو: مسلم لیگ ن میڈیا)
ن لیگ اور پی پی پی قیادت کی ایک اور ملاقات ہوئی ہے اور ایک تازہ ترین پلان سامنے آیا ہے۔ یا یہ کہیے کہ پلان کا ایک ارادہ سامنے آیا ہے۔
لاہور میں ہونے والی اس حالیہ ملاقات اور اس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے یہ تو پتا چلا کہ ٹوٹے دل جڑ گئے ہیں مگر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ پلان آخر ہے کیا؟
یہ کہا جا سکتا ہے کہ ن لیگ اور پی پی پی کی قیادت کے درمیان پرجوش ملاقات ہوئی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے انہوں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ کچھ کیا جائے۔ اگر بات یہ ہو کہ کیا کیا جائے تو اس کا جواب ابھی واضح نہیں اور اگر سوال ہو کہ حکومت کو گھر بھیجنے کا مقصد عملی طور پر کیسے حاصل کیا جائے گا اس کے بارے میں ابھی خاموشی ہے۔
گذشتہ کالم میں بھی اس پر گفتگو ہو چکی ہے کہ اپوزیشن کا گیم پلان ان کی اپنی حکمت عملی سے زیادہ بیرونی عوامل پر منحصر ہے۔
تازہ ترین بیٹھک میں جب سوال کیا گیا کہ اپوزیشن کی سٹریٹیجی کیا ہو گی تو اس کا جواب آئیں بائیں شائیں کی صورت میں سامنے آیا۔
مسلم لیگ ن نے بات اپنی سنٹر ایگزیکٹو کمیٹی اور نواز شریف کی طرف لڑھکا دی۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی پرانے اعلانات اور دعوے ہی سامنے آئے۔ مولانا فضل الرحمان نہ صرف یہ کہ اس بیٹھک میں شامل نہیں تھے بلکہ ان کا ابھی تک کوئی ردعمل بھی سامنے نہیں آیا۔ 
سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کے آپشنز کیا ہیں؟ ابھی تک دو صورتیں سامنے آئی ہیں؛ اجتجاج اور تحریک عدم اعتماد۔
احتجاج کی تازہ ترین صورت لانگ مارچ کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ایک لانگ مارچ کا پی ڈی ایم پلیٹ فارم سے اعلان ہوا ہے اور دوسری طرف پی پی پی نے اپنے لانگ مارچ کا علیحدہ سے اعلان کیا ہے۔

اپوزیشن کے اجلاس میں سابق صدر آصف زرداری نے بھی شرکت کی (فوٹو: مسلم لیگ ن میڈیا)

توقع یہ تھی تیاری کے پیش نظر دونوں پارٹیاں ایک مشترکہ تاریخ کا اعلان کریں گی مگر اس پہلو سے کوئی پلان سامنے نہیں آیا۔
اس کے دو ہی مطلب ہیں۔ ایک تو یہ کہ اپوزیشن کو خود بھی لانگ مارچ سے کوئی خاص امیدیں نہیں ہیں جیسے کہ اس سے پہلے تاریخ کے بعد تاریخ دینے سے ظاہر ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اندر کھاتے کسی سرپرائز کا پلان ہے جو مناسب وقت پر سامنے آئے گا۔  
لانگ مارچ کے بعد دوسرا آپشن تحریک عدم اعتماد ہے۔
شہباز شریف نے اتنی بات کی کہ ان کی تحریک عدم اعتماد پر پوزیشن میں لچک آئی ہے۔ مگر پوزیشن لینے اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں جو فاصلہ ہے اس کو دور کرنے کا طریقہ سامنے نہیں آیا۔
یہ وہی اپوزیشن ہے جن کے سامنے مِنی بجٹ اور دیگر قوانین پاس ہوۓ ہیں۔ ایسا کیا بدلے گا کہ وہ اسمبلی جس میں حکومت بارہا اپنی اکثریت ثابت کر چکی ہے وہاں وہ اقلیت بن جائے گی۔
اپوزیشن کی طرف سے یوسف رضا گیلانی کے انتخاب کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ مگر قومی اسمبلی میں سرپرائز دینے والے سینیٹ میں خود سرپرائز کا شکار ہو گئے۔ اس لیے یہ امر باعث حیرت نہیں کہ ن لیگ کی طرف سے عدم اعتماد کے لیے ہچکچاہٹ اور تحفظات ہی رہے ہیں۔  

حالیہ اجلاس میں مولانا فضل الرحمان شریک نہیں تھے۔ فوٹو مسلم لیگ ن میڈیا

ن لیگ اور پی پی پی کی بیٹھک سیاسی میدان میں اِن رہنے کی کوشش تو ہے مگر کیا اس کے کوئی دور رس نتائج بھی ہوں گے، یہ ابھی سامنے آنا باقی ہے۔
اس بیٹھک میں البتہ اگلے انتخابات میں تعاون اور ممکنہ اتحاد بظاہر قبل از وقت مگر قابل غور اعلان ہے۔ ن لیگ اور پی پی پی کے درمیان براہ راست مقابلے پر ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ اس سے اگلے سیٹ اپ کے بارے میں دونوں کے ارادوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یقیناً اس کے لیے دونوں نے 2008 میں اپنے مشترکہ تجربے ضرور ڈسکس کیے ہوں گے۔ مگر فی الحال تو یہی اعلان ہے کہ ٹوٹے دل جڑ چکے ہیں مگر اس کے بعد کے اعلانات کا انتظار ہے۔

شیئر: