Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم، اپوزیشن کا گیم پلان

بالغ جمہوریتوں میں اپوزیشن کا کام حکومت پر مثبت تنقید کرنا ہوتا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
گذشتہ کچھ عرصے سے حکومت کے بارے میں خبریں، افواہیں اور سرگوشیاں کئی درجے بڑھ چکی ہیں۔ اس میں کچھ کردار حکومت کا اپنا بھی ہے۔
انہی صفحات پر گزشتہ کالموں میں حکومت کی ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی پالیسی کا ذکر ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اپوزیشن کا گیم پلان آخر کیا ہے۔
بالغ جمہوریتوں میں اپوزیشن کا کام حکومت پر مثبت تنقید کرنا ہوتا ہے۔ حکومت اپنے ایجنڈے کو قانون سازی کے ذریعے پورا کرتی ہیں اور اگر اپوزیشن کے لوگ اس ایجنڈے سے متفق نہ ہوں تو وہ اس کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
امریکہ میں سپریم کورٹ کے ججوں کا انتخاب سینیٹ میں ووٹنگ سے ہوتا ہے۔ یہ جج تاحیات ہوتے ہیں اور کسی حد تک پالیسی فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ججوں کی محدود تعداد کے پیش نظر سالوں میں کبھی سپریم کورٹ کی سیٹ آتی ہے۔
صدر ٹرمپ کے دور میں تین جج نامزد ہوئے جس کے بعد اب ڈیموکریٹ حکومت پہ کافی دباؤ ہے۔ دوسری طرف سینیٹ جس کے ٹوٹل 100 ارکان ہیں وہاں پر دونوں پارٹیوں کے ووٹ برابر ہیں یعنی 50 50 ہیں، جس کے بعد فیصلہ کن ووٹ بطور صدر سینیٹ امریکی نائب صدر کملا ہیرس کا ہوگا۔
اب فرض کریں کہ سینیٹ میں جج نامزدگی کے لیے ووٹنگ ہو۔ اس ووٹنگ کے نتائج دیر پا ہوں، بات ایک ایک ووٹ کی ہو اور دونوں پارٹیوں میں سے کسی ایک کا پارلیمانی لیڈر سینیٹ میں پہنچے ہی نہیں۔
یہ منظر پاکستان میں سچ ہوا۔ سینیٹ کے ارکان کی تعداد ہمارے ہاں بھی 100 ہے۔ البتہ ہمارے ہاں بظاہر جی ہاں بظاہر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تعداد زیادہ ہے۔
سینیٹ میں سٹیٹ بنک کا قانون پیش کیا گیا۔ جس کے بارے میں اپوزیشن نے واضح پوزیشن لی اور اس بل کو معیشت دشمن، غلامی اور پتہ نہیں کیا کیا قرار دیا۔ یہ بھی واضح رہے کہ پارلیمان میں قانون سازی باآواز بلند ہوتی ہے اس لیے صاف پتہ چلتا ہے کہ کون کس طرف ووٹ دے رہا ہے۔ سٹیٹ بنک کے قانون میں دلچسپ کارنامہ یہ ہوا کہ اپوزیشن پارٹیوں نے یہ امر یقینی بنایا کہ ان کے ووٹ حکومت کے ووٹوں کے عین برابر ہو جائیں جس کے بعد چئیرمین سینیٹ نے اپنا فیصلہ کن ووٹ دے کر بل کو قانون بنوا دیا۔

سینیٹ کے ارکان کی تعداد ہمارے ہاں بھی 100 ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

اب یہ اپوزیشن کی کامیابی ہوئی یا حکومت کی یہ فیصلہ بھی نہیں ہوا۔ 
سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کا گیم پلان آخر ہے کیا ؟ ایک طرف تو ان کے بلند و بانگ دعوے ہیں کہ وہ ایوان کے اندر اور باہر تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مِنی بجٹ اور سٹیٹ بنک قوانین کی مخالفت میں دھواں دھار تقریریں اور ٹی وی پر دعوے بھی کیے مگر اس کے بعد جب عمل کی باری آئی تو بالکل ڈھیر نظر آئے۔
اس بات میں بھی کوئی امر مانع نہیں کہ اپوزیشن کھلے عام اس بل کی حمایت کر دیتی۔ ایسا کرنا بھی سنجیدہ سیاست کے طرف ایک قدم ہوتا۔ آخر اپوزیشن کا کام صرف تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ مثبت رائے دینا بھی ہے۔
ہو سکتا ہے وہ کسی ایشو پر اکٹھے ہو کر قانون سازی کر لیں۔ مگر سامنے کچھ اور پس پردہ کچھ کے بعد اپوزیشن نے اور کچھ نہیں تو اپنی ساکھ کو مجروح ضرور کیا ہے۔
 سوال یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کا گیم پلان ہے کیا ؟ جو اپوزیشن اپنے 50 کے قریب اراکین پورے نہیں کر سکتی وہ لانگ مارچ اور اجتجاج کیسے کرے گی؟ اس کا بظاہر جواب تو یہی ہے کہ اپوزیشن کا تمام پلان کسی امید پر منحصر ہے اور اگر کوئی پلان ہے بھی تو اس کا انحصار حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کی خرابی پر ہے۔
اب اس سوچ کے بعد نظریاتی اور عملی حوالے سے کئی سوالات بھی اٹھتے ہیں۔ ایک طرف یہ سوالات جمہوری طریقوں اور اپوزیشن کے دعوں کی قلعی کھولتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف ان کی عملی بے بسی کا اظہار بھی ہیں۔

جو اپوزیشن اپنے 50 کے قریب اراکین پورے نہیں کر سکتی وہ لانگ مارچ اور اجتجاج کیسے کرے گی؟ (فائل فوٹو: اے پی)

آخر میں گفتگو کو اسی طرح سمیٹا جا سکتا ہے کہ یا تو اپوزیشن کے پس کوئی خاص گیم پلان نہیں اور دوسرا اگر کوئی پلان ہے بھی تو وہ ان کا اپنا بنایا ہوا نہیں۔
ہر دو صورتوں میں ان کا انحصار اپنی قوت سے زیادہ حالات، واقعات اور محرکات پر ہی رہے گا۔ اسی لیے حکومت کی کمزوریوں کے باوجود اپوزیشن ان کو بذات خود ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کیا وہ اسی طرح مزید ڈیڑھ سال گزار دیں گے؟ بظاہر یہی لگتا ہے کہ سب پارٹیاں اپنے آپ کو سیاسی طور پر متحرک رکھتے ہوئے اب ڈیڑھ سال کے بعد یعنی الیکشن کا منظرنامہ دیکھ رہے ہیں مگر اس کا بھی انحصار اس درمیانی عرصے پر ہے۔
فی الحال تو اپوزیشن کی خواہشیں اور دعوے ضرور ہیں مگر ان کا گیم پلان اگر کوئی ہے بھی تو اس کا اثر سامنے نہیں آیا۔

شیئر: