Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا کمشنر پشاور نے تیتروں کا غیر قانونی شکار کیا؟

ریاض محسود کے مطابق ’شکار کے پرمٹ وہاں کے ایک پرائیوٹ گیم ریزرو سے حاصل کیے گئے تھے۔‘ (فوٹو: ٹوئٹر)
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے کمشنر ریاض محسود کی شکار کیے گئے تیتروں کے ساتھ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس کے بعد وہ  تنقید کی زد میں ہیں۔
تاہم ریاض محسود نے جمعے کو اس حوالے سے وضاحت کی ہے کہ شکار صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی کے ایک قصبہ کالا باغ میں کیا گیا تھا۔
’شکار کے پرمٹ وہاں کے ایک پرائیوٹ گیم ریزرو سے حاصل کیے گئے تھے۔ جس کے تحت ایک لاکھ روپے میں 30 پرندوں کے شکار کی اجازت ملی تھی، وہاں پر 24 پرندے مارے گئے جو مجاز کوٹے سے کم تھے۔‘
انہوں نے سوشل میڈیا ٹرینڈز کی تردید کی اور بتایا کہ ’یہ گمراہ کن اور ثابت شدہ حقائق کے منافی ہیں اور ان کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔‘
’سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصویر گذشتہ اتوار کو لی گئی تھی۔ تمام قانونی طریقہ کار اور جنگلی حیات کے قوانین کے دائرے کار میں شکار ہوا۔‘
تاہم اسسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈ لائف پنجاب تنویر جنجوعہ نے اردو نیوز کے نامہ نگار رائے شاہنواز کو بتایا کہ ’ان دنوں آل پنجاب لائسنس پر پابندی ہے تاہم جس علاقے میں شکار کُھلا ہو وہاں پر ایک وقت میں چھ تیتر اور 10 مرغابیاں شکار کی جا سکتی ہیں اس سے زیادہ اگر شکار کریں گے تو قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔‘
ان کے مطابق ’ریکارڈ سے دیکھنا پڑے گا کہ کمشنر پشاور کو لائسنس جاری ہوا ہے یا نہیں۔ اگر لائسنس جاری ہوا ہے تو شکار میں کوئی ممانعت نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ معاملہ ابھی چھان بین کے لیے ہمارے پاس نہیں آیا۔ ہماری ضلعی ٹیم جب خلاف ورزی رپورٹ کرے گی تو اس وقت چھان بین کریں گے۔‘
سوشل میڈیا پر بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کمشنر پشاور نے بریڈنگ کے وقت شکار کیا ہے جو ظلم اور قانوناً جرم ہے۔
لیکن ریاض مسعود کا کہنا ہے کہ ’شکار سیزن کو پورا کرنے کے بعد کیا گیا تھا لیکن تصویر آج شیئر کی گئی، جس کی وجہ سے کافی لوگ غلط سمجھ کر اسے آگے شیئر کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے اپنے وضاحتی بیان میں سوشل میڈیا صارفین کو کسی خبر کی مکمل تصدیق سے پہلے باتیں بنانے اور خبریں پھیلانے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔
کمشنر پشاور ریاض محسود کا مزید کہنا تھا کہ سچ جانے بغیر سوشل میڈیا پر ٹرولنگ سے متعلقہ افراد کو ذہنی اور جذباتی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔

تنویر جنجوعہ کے مطابق ’نواب آف کالا باغ فیملی کی ایک ذاتی شکار گاہ بھی ہے جہاں پر سرکاری قوانین نافذ العمل نہیں ہوتے۔‘ (فائل فوٹو: حکومت پنجاب)

خیال رہے کہ صوبے بھر میں تیتر کے شکار پر 15 فروری سے پابندی عائد ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف اس بات کی تحقیقات بھی کر رہا ہے کہ یہ شکار کب کیا گیا۔ 15 فروری کے بعد لائسنس یافتہ افراد کے شکار پر بھی پابندی ہے۔
تنویر جنجوعہ نے یہ بھی بتایا کہ ’میانوالی میں نواب آف کالا باغ فیملی کی ایک ذاتی شکار گاہ بھی ہے جہاں پر سرکاری قوانین نافذ العمل نہیں ہوتے۔ مقامی وائلڈ لائف کی ٹیم اس بات کی بھی تصدیق کرے گی کہ شکار ہوا کہاں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بظاہر نظر آنے والی تصویر میں بھورے تیتروں کی تعداد سرکاری اجازت نامے سے زیادہ ہے اور پانچ کے قریب کالے تیتر بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا شکار صرف ذاتی شکار گاہ پر ہی ہو سکتا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر ردعمل

کمشنر پشاور کی جانب سے تیتروں کے شکار کی تصویر شیئر کیے جانے کے بعد ان پر سوشل میڈیا صارفین تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں۔
صحافی اسد علی طور نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’کمشنر پشاور ریاض محسود شکار شدہ تیتروں کے ساتھ تصویر کھنچوا رہے ہیں، کیا جنگلی حیات کی حفاظت کرنے کی دعوے دار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس کے خلاف کارروائی کرے گی؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پی ٹی آئی کی حکومت میں نایاب پرندوں اور دوسرے جانوروں کا غیر قانونی شکار کافی بڑھ گیا ہے۔‘
ایک اور ٹوئٹر صارف عباس جعفری نے لکھا کہ ’جنگلی حیات کو اپنی تسکین کی خاطر اجاڑنے والے کوئی غیر ملکی نہیں ہیں بلکہ یہ کمشنر پشاور ریاض محسود ہیں، جو سرعام نایاب تیتر کو ختم کرنے کی خود کوشش میں لگے ہیں۔‘
عبدالنعیم جٹ نے لکھا کہ ’کمشنر پشاور جس تکبر اور غرور کے ساتھ شکار کرتے نظر آ رہے ہیں، اس میں ریاست مدینہ نیا پاکستان کی جھلک نمایاں نظر آ رہی ہے۔ ریاست پاکستان کے قوانین صرف غریب عوام تک محدود ہیں۔‘

شیئر: