Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرگودھا: اغوا ہونے والی ایک لڑکی کی تلاش کے دوران151 لڑکیاں بازیاب

پولیس رپورٹ کے مطابق بازیاب کی گئی بعض لڑکیوں کے نکاح نامے بھی بنا لیے گئے تھے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا میں پولیس نے گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران 151 مغوی لڑکیوں اور خواتین کو بازیاب کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
پولیس کی 200 صفحات پر مشتمل ضخیم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرگودھا کے مختلف علاقوں سے اغوا کی گئی اِن 151 لڑکیوں اور خواتین کو ڈیڑھ برس قبل لاپتہ ہونے والی 18 سالہ ثوبیہ بتول کی تلاش کے دوران چھاپوں میں بازیاب کرایا۔
سرگودھا پولیس کی رپورٹ کے مطابق ثوبیہ بتول کو بازیاب کرانے کے لیے گزشتہ ماہ پانچ جنوری کو دی گئی عدالتی ہدایات کے بعد ضلع بھر میں سرچ آپریشن کیا گیا اور مختلف علاقوں میں چھاپے مارے گئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کیس میں پنجاب پولیس کے سربراہ کی جانب سے دیگر اضلاع کی پولیس کو بھی ہدایات جاری کی گئیں جس کے بعد سرگودھا کے قریبی اضلاع میں بھی چھاپے مارے گئے اور مغوی خواتین کو بازیاب کیا گیا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پولیس تلاش کے باوجود ثوبیہ بتول کو ڈھونڈنے میں ناکام رہی۔
پیر کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں سرگودھا کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) ڈاکٹر رضوان نے عدالت کو بتایا کہ ثوبیہ بتول کی تلاش جاری ہے تاہم تاحال کامیابی نہیں ملی۔ ’اغوا کے شبے میں گرفتار ملزمان سے تفتیش اور ان کے رشتہ داروں کے انٹریوز کیے۔‘

لڑکیاں کہاں سے بازیاب کرائی گئیں؟

رپورٹ میں بتایا گیا مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں نے مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات پر تفتیش کی اور چھاپے مارے۔
پولیس کے مطابق دارالامان، ایدھی سینٹرز سے رابطے کیے گئے اور علاقے میں موجود خفیہ قحبہ خانوں پر چھاپے مارے گئے۔

عدالت نے پنجاب پولیس کے سربراہ کو صوبے بھر میں اغوا کی گئی لڑکیوں کی بازیابی کی ہدایت کی۔ فائل فوٹو: اے پی

پولیس رپورٹ کے مطابق ثوبیہ بتول کی بازیابی کے لیے ایک چھاپہ ضلع بھکر کے علاقے ٹبہ گاما کلورکوٹ میں بھی مارا گیا جہاں سے یاسمین نامی ایک لڑکی کو بازیاب کیا جو ضلع جھنگ سے اغوا کی گئی تھی۔

ثوبیہ بتول کی گمشدگی یا اغوا کیسے ہوا؟

سرگودھا کے تھانہ شاہ پور صدر کی حدود سے 21 اگست 2020 کو لاپتہ ہونے والی ثوبیہ بتول کے اغوا کا مقدمہ 28 اگست کو درج کیا گیا۔
پولیس کو مقدمے کے اندراج کی درخواست ثوبیہ بتول کے والد محمد رمضان نے دی تھی اور ایک ملزم کو نامزد کیا تھا۔
ابتدائی تفتیش کے دوران پولیس نے ثوبیہ کے فون نمبر کے ذریعے اُن سے رابطے میں رہنے والے افراد کا پتا لگایا اور ملزم محمد عمیر کو حراست میں لیا۔
پولیس نے اس دوران ملزم عمیر کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے کوششیں کیں اور ایک فوج کی ملازمت میں موجود ایک ملزم کو متعلقہ حکام کی اجازت ملنے کے بعد تحویل میں لیا لیکن مغویہ کا سراغ نہ لگایا جا سکا۔

سرگودھا کے ڈی پی او ڈاکٹر رضوان کی رپورٹ میں اغوا اور بازیابی کے اعداد وشمار کو عدالت نے تشویشناک قرار دیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

عدالت میں پولیس رپورٹ پر ججز کا ردعمل کیا رہا؟

ثوبیہ بتول اغوا کیس میں گرفتار ملزم محمد عمیر نے ہائیکورٹ سے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے پر سپریم کورٹ میں اپیل کر رکھی ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے سرگودھا کے ڈی پی او ڈاکٹر رضوان کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ پر حیرت اور تشویش ظاہر کی۔
انہوں نے کہا کہ ایک ضلع سے اتنی بڑی تعداد میں لڑکیوں کا اغوا تشویش ناک اور پولیس کی نااہلی اور ناکامی ہے۔
ڈی پی او نے عدالت کو بتایا کہ جن لڑکیوں کو پولیس نے بازیاب کیا ان میں سے کئی کے دوران اغوا نکاح بھی کیے جا چکے تھے۔ جس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ نکاح نامے تو بن جاتے ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اگست 2020 میں مقدمے کے اندراج کے باوجود ثوبیہ بتول کو بازیاب نہ کرانا افسوس ناک ہے۔
عدالت نے پنجاب پولیس کے سربراہ کو صوبے بھر میں اغوا کی گئی لڑکیوں کو بازیاب کرنے کے لیے اقدامات کی ہدایت کی۔

شیئر: