Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پاکستان میں روزانہ 11 خواتین اور آٹھ بچے زیادتی کا شکار‘

2015 سے اب تک جنسی زیادتی کے 22 ہزار 37 مقدمات درج ہوئے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
کورونا کی وجہ سے سال 2020 کے بیشتر حصے میں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں گھروں سے کام کیا گیا یا پھر نصف عملے سے کام چلایا گیا۔
اس کے باوجود ملک میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی، ہراسانی اور سائبر جرائم کی شرح میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا، خواتین کے ساتھ ساتھ بچوں پر جنسی تشدد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
حکومت کی جانب سے جنسی جرائم کے مجرموں کو سخت سزائیں دینے کے کئی ایک قوانین بھی متعارف کروائے گئے، جن میں حال ہی میں ریپ کے ملزمان کو نامرد بنانے کا صدارتی آرڈینینس بھی شامل ہے۔
سال 2020 میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات کئی روز بلکہ مہینوں خبروں میں موجود رہے۔ ان میں موٹروے ریپ کیس سب سے اہم ہے جس میں لاہور سیالکوٹ موٹروے پر خاتون کو پٹرول ختم ہونے پر رکنا پڑا اور اس دوران دو ملزمان نے انہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت یومیہ 11 خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہو رہی ہیں۔ یہ تعداد پولیس اور دیگر اداروں کے پاس درج ہونے والی شکایات سے اخذ کی گئی ہے۔ 
لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2015 سے اب تک مجموعی طور پر جنسی زیادتی کے 22 ہزار 37 مقدمات درج ہوئے جن میں سے چار ہزار 60 مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
اب تک 77 مجرموں کو سزائیں ہوئیں اور صرف 18 فیصد کیسز پراسیکیوشن کی سطح تک پہنچے ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن ثوبیہ شاہ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سال 2020 میں جنسی تشدد، گینگ ریپ اور کام کی جگہ پر ہراسانی کے ساتھ ساتھ کم عمری کی شادی کے واقعات بھی بڑھے ہیں۔

2015 سے اب تک جنسی زیادتی کے مجرموں میں سے 77 کو سزا ہوئی۔ فوٹو اے ایف پی

ثوبیہ شاہ نے کہا کہ ’یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوا ہے کہ ایسے واقعات کا ڈیٹا نامکمل ہے کیونکہ بہت سارے کیسز تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ لہٰذا نہ تو این جی اوز کا ڈیٹا سو فیصد درست ہے اور نہ ہی سرکاری اعداد و شمار حقائق کی درست نشاندہی کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جنسی جرائم اور ہراسانی سے متعلق قوانین موجود ہیں اور حکومتی سطح پر مزید قانون سازی بھی ہوئی ہے لیکن مسئلہ ان قوانین کے بارے میں آگاہی اور ان پر عمل در آمد کا ہے۔ حکومت کو اب بھرپور تشہیری مہم کے ذریعے عوام الناس کو ان قوانین کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے تاکہ معاشرے کو خواتین کے لیے محفوظ بنایا جا سکے۔‘
سال 2020 میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کا بیشتر وقت آن لائن گزرا جس کی وجہ سے ملک میں سائبر ہراسانی کے رجحان میں اضافہ ہوا۔
ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن کی سائبر ہراسانی کے حوالے سے قائم ہیلپ لائن پر سال 2020 میں مجموعی طور پر 3246 شکایات آئیں جن میں آن لائن کے علاوہ گھریلو تشدد کی شکایات بھی درج کرائی گئیں۔
ڈیجیٹل رائٹس کی سربراہ نگہت داد کے مطابق ہیلپ لائن پر سائبر ہراسانی کی شکایات میں 68 فیصد خواتین تھیں۔ لاک ڈاون میں سائبر ہراسانی کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ان دنوں میں شکایت کی شرح 189 فیصد بڑھی۔
انھوں نے کہا کہ ’وقت آ گیا ہے کہ وزارت انسانی حقوق اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی قوانین کو فعال اور تحقیقات کے عمل کو تیز کریں تاکہ سائبر ہراسانی کا شکار خواتین کو جلد از جلد انصاف فراہم کیا جا سکے۔‘

2020 میں گینگ ریپ اور کام کی جگہ پر ہراسگی کے کیسز میں اضافہ ہوا۔ فوٹو اے ایف پی

دوسری جانب وفاقی وزارت انسانی حقوق نے بھی خواتین پر تشدد کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب، سندھ، کے پی اور بلوچستان میں خواتین پر گھریلو تشدد کے کیسز سامنے آئے۔ 
کراچی ہیلپ لائن پر 948 شکایات موصول ہوئیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں صرف مارچ میں 399 خواتین کے قتل کے کیسز سامنے آئے۔ پنچاب میں گھریلو تشدد کی 144 شکایات درج ہوئیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پچاس فیصد خواتین نے جاننے کے باوجو شکایات درج کروانے کے بجائے خاموشی اختیار کی۔ کم آمدن اور مالی وسائل نہ ہونے سے گھریلو تشدد میں زیادہ اضافہ ہوا۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساحل کے مطابق سال 2020 کے پہلے چھ ماہ میں یومیہ 8 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے رہے۔ باقی چھ ماہ کے اعداد و شمار ابھی تک مرتب نہیں کیے جا سکے۔
ساحل کی رپورٹ کے مطابق سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران روزانہ آٹھ سے زائد بچے استحصال کا نشانہ بنے، جس میں سے 785 کم سن لڑکیاں اور 704 لڑکے شامل ہیں۔
مجموعی اعداد و شمار کے مطابق ان کیسز میں 53 فیصد لڑکیاں جبکہ 47 فیصد لڑکے استحصال کا شکار بنے۔
وفاقی سطح پر خاتون محتسب برائے جنسی ہراسانی کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 میں مقام کار یعنی کام کی جگہ و دفاتر وغیرہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کی 445 شکایات آئیں۔ ان میں 15 پشاور جبکہ 27 کراچی سے تھیں۔
وفاقی محتسب 60 دنوں میں فیصلہ کرنے کی پابند ہیں اس لیے 62 کیسز ہی ان کے پاس زیر التوا ہیں جبکہ باقی مقدمات نمٹا دیے گئے ہیں۔  
خاتون وفاقی محتسب کو 2019 میں خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے والوں کے خلاف مقدمات سننے کا اختیار بھی دیا گیا تھا تو سال 2019 میں ان کے پاس صرف 8 مقدمات آئے جبکہ 2020 میں ان مقدمات کی تعداد 46 رہی۔ جن میں اسلام آباد سے 15، پنجاب سے 26، سندھ سے چھ جبکہ خیبر پختونخوا سے 5 مقدمات آئے۔ بلوچستان سے کسی نے کوئی شکایت نہیں کی۔

مارچ 2020 میں پختونخواہ میں 399 خواتین کے قتل کے کیسز سامنے آئے۔ فوٹو اے ایف پی

خاتون وفاقی محتسب کے مطابق 54 میں 38 مقدمات نمٹا دیے گئے ہیں جبکہ 16 زیر التوا ہیں۔
دوسری طرف سال 2020 میں خواتین اور بچوں کو تحفظ دینے اور ان کے خلاف جرائم کی سرکوبی کے لیے متعدد قوانین بھی بنائے گیے۔
وزارت قانون کے مطابق سال 2020 میں ’لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی ایکٹ 2020‘بھی منظور کیا گیا جو خواتین اور بچوں کو فوجداری مقدمات میں مالی اور قانونی امداد فراہم کرے گا۔
جنسی زیادتی کے ملزمان کو سخت سے سخت سزاوں اور جلد از جلد مقدمات نمٹانے کے لیے ایک اہم قدم ’اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020‘ بھی نافذ کیا گیا ہے۔
 اس آرڈیننس کے ذریعے عصمت دری اور جنسی زیادتی جیسے جرائم کے خلاف خواتین کو فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔ اس مقصد کے لیے خصوصی عدالتوں اور خصوصی تفتیشی ٹیموں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو جنسی زیادتی کا شکار افراد کے مقدمات کی فوری سماعت اور متاثرین کو فوری انصاف کی فراہمی کے لئے قانونی امداد فراہم کریں گی۔
اس آرڈینینس کے تحت ریپ کی تعریف میں بھی توسیع کی گئی ہے اور سابق مقدمات کی روشنی میں ابہام دور کیا گیا ہے۔ اسی طرح جنسی زیادتی کے ملزمان کو نامرد بنایا جا سکے گا۔

شیئر: