Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم قتل کیس: وقوعہ سے ٹرائل تک، کب کیا ہوا؟

سپریم کورٹ نے ملزم کی والدہ کی ضمانت خاتون ہونے کی بنا پر منظور کی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف سیون میں گذشتہ برس عید الضحیٰ سے ایک روز قبل ہونے والے سابق سفیر شوکت مقدم کی 28 سالہ بیٹی کے بہیمانہ قتل نے گذشتہ سات ماہ سے عوام کی توجہ حاصل کر رکھی ہے۔
20 جولائی کو واردات ہونے کے بعد کیس کے ٹرائل کا اکتوبر میں آغاز ہوا جو چار ماہ میں اختتام ہوا اور 24 فروری کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت اس کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ سنائے گی۔ 
اس تحریر میں وقوعہ سے لے کر ٹرائل تک تمام واقعات کو احاطہ کیا گیا ہے۔ 
یہ 19 جولائی کا دن تھا، اسلام آباد میں پاکستان کے سابق سفیر شوکت مقدم بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہر عید سے دو روز قبل تیاریوں میں مصروف تھے اور اسی سلسلے میں وہ اسلام آباد اپنی رہائش گاہ سے خریداری کے لیے مارکیٹ روانہ ہوئے۔
شام کو گھر لوٹنے پر انہیں معلوم ہوا کہ ان کی 28 سالہ بیٹی نور مقدم گھر میں موجود نہیں ہیں۔ نور کے ساتھ موبائل پر رابطہ نہ ہونے کے بعد انہوں نے بیٹی کے دوستوں سے رابطہ کیا اور نور مقدم کی تلاش شروع کر دی۔ 
20 جولائی کی صبح ظاہر جعفر نے نور مقدم کے والدین کو کال پر بتایا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں ہیں۔  
عیدالضحیٰ سے ایک دن قبل 20 جولائی 2021 کو رات 10 بجے نور مقدم کے والد شوکت مقدم کو پولیس کی جانب سے اطلاع دی گئی کہ ان کی بیٹی کا قتل ہو گیا ہے، وہ فوری تھانہ کوہسار پہنچیں۔ جہاں سے پولیس ان کو لے کر اسلام آباد کے ایف سیون فور میں ملک کے معروف بزنس مین ذاکر جعفر کے گھر لے گئی، جہاں نور مقدم کی سر کٹی ہوئی لاش کی شناخت کی گئی۔
پولیس نے موقع سے ہی ذاکر جعفر کے بیٹے ظاہر جعفر کو مبینہ طور پر آلۂ قتل سمیت گرفتار کر لیا تھا۔

20 جولائی کی صبح ظاہر جعفر نے نور مقدم کے والدین کو کال پر بتایا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

ابتدا میں یہ خبر ٹی وی سکرینوں اور اخبارات میں بس اتنی ہی جگہ بنا سکی جو ایک معمول کی جرم کی خبر کو ملتی ہے۔ لیکن مقتولہ کے دوستوں نے سوشل میڈیا پر جب اس سنگین واقع سے متعلق آواز اٹھانا شروع کی تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر کوئی نور مقدم کو بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے کے بارے بات کرنے لگا اور معاملہ اقتدار کے ایوانوں تک جا پہنچا اور وزیراعظم عمران خان نے اس کیس کا نوٹس لے لیا۔ 
اس قتل کے وقت مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین عید الضحیٰ منانے کے لیے کراچی میں موجود تھے۔ جنہیں اسلام آباد پولیس نے 24 جولائی کو جائے وقوعہ پر موجود ملازمین سمیت جرم کے شواہد چھپانے اور اعانت کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔  
26 جولائی کو وفاقی وزارت داخلہ نے ملزم ظاہر جعفر کا نام بلیک لسٹ میں ڈالتے ہوئے تمام ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد ملزمان کے نام 10 اگست کو ای سی ایل میں ڈال دیے گئے۔  

نور مقدم کے مقدمے کے لیے چندہ مہم کا آغاز 

28 جولائی کو نور مقدم کے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں نے ’گو فنڈ می‘ پر مقدمے پر آنے والے اخراجات کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم کا آغاز کیا، جس میں 49 ہزار ڈالرز تک کی رقم اکٹھی کی گئی۔
تاہم دو روز بعد یعنی 30 جولائی کو اس مہم کو روک دیا گیا۔ مقتولہ کے والد شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور کے مطابق یہ فند نور مقدم کے دوستوں اور قریبی رشتہ داروں کی جانب سے شروع کیا گیا تھا۔ تاہم جب نور کے اہل خانہ کو اس فنڈ کے بارے معلوم ہوا تو انہوں نے اسے بند کروا دیا۔
شاہ خاور کے مطابق اس کیس کو وہ رضاکارانہ طور پر دیکھ رہے ہیں اور نور مقدم کے اہل خانہ سے کوئی فیس وصول نہیں کر رہے۔  

ملزم کے والدین کے جانب سے اخبار میں اشتہار 

29 جولائی کو مرکزی ملزم کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کی جانب سے پاکستان کے انگریزی روزناموں میں ایک ایسے موقع پر اشتہار دیا گیا جب وہ پولیس کی زیر حراست تھے۔
اس اشتہار میں میں مرکزی ملزم کے والدین نے وقوعہ کی مذمت کرتے ہوئے نور کے خاندان سے اظہار ہمدردی کی۔ اس اشتہار کو شائع کرنے پر بھی سوشل میڈیا صارفین نے شدید تنقید کی اور والدین کی جانب سے پولیس کی حراست کے دوران اشتہار شائع کروانے کو فیس سیونگ قرار دیتے رہے۔  

ملزمان کی ضمانتیں 

مرکزی ملزم کے والدین کی جانب سے اسلام آباد کی مقامی عدالت میں ضمانت کی درخواست دائر کی گئی، جو کہ پانچ اگست 2021 کو مسترد کر دی گئی تھی۔ 
15 اگست کو پولیس نے تفتیش کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے تھیراپی ورکس کے سی ای او سمیت چھ افراد کو شواہد چھپانے کے الزم میں گرفتار کیا۔  
تاہم 23 اگست 2021 کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے تھیراپی ورکس کے ملازمین کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی تھی۔  
مرکزی ملزم کے والدین کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت کے لیے ایک بار پھر رجوع کیا گیا۔

29 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو دو ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

29 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو دو ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔ جس کے بعد ملزمان کے وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
سپریم کورٹ نے 18 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا دو ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم نامہ برقرار رکھتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی کی ضمانت خاتون ہونے کی بنیاد پر منظور کر لی۔  
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نور مقدم کے دوستوں، رشتہ داروں اور سول سوسائٹی نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔  

پولیس نے تفتیش کے بعد عدالت میں کیا رپورٹ جمع کرائی؟  

تقریباً ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد 11 ستمبر کو پولیس نے تفتیش مکمل کرتے ہوئے عدالت میں ضمنی چالان جمع کروایا۔
اس چالان میں ملزم ظاہر جعفر کے بیان سمیت 18 گواہان کی فہرست عدالت میں جمع کروائی۔ پولیس کی جانب سے جمع کرائے گئے چالان کے مطابق ’ملزم نے والد کو واقعہ کا بتایا تو انہوں نے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، ہمارے بندے آ کر تمہیں وہاں سے نکال دیں گے۔‘
ضمنی چالان کے ساتھ ڈی این اے رپورٹ بھی منسلک ہے جس میں مقتولہ کے ریپ کی تصدیق کی گئی ہے۔
پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’ملزم کے والد اگر پولیس کو بروقت اطلاع دیتے تو مقتولہ کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر نے جرم چھپانے میں اپنے بیٹے کی مدد کی ہے۔‘
چالان میں تھیراپی ورکس کے ورکرز کے خلاف بھی بیان درج کیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق ’ملزم نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا کہ تھیراپی ورکرز کے ملازمین کے ساتھ جھگڑا غلط فہمی کے نتیجے میں ہوا ہے اور پولیس کے پہنچنے سے قبل تھیراپی ورکرز نے ملزم کے ساتھ مل کر شواہد چھپانے کی کوشش کی۔ جبکہ زخمی تھیراپی ورکر نے وقوعہ کا اندراج نہیں کروایا اور ہسپتال میں پولیس کو ٹریفک حادثے کا بتایا۔‘
ضمنی چالان میں پولیس نے جائے وقوعہ پر موجود گھریلو ملازمین کو بھی جرم میں شراکت دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’مقتولہ نے گھر کے ٹیرس سے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن ملازمین نے انہیں گھر سے باہر جانے نہیں دیا اور گھر کا دروازہ بند کیے رکھا۔ اگر چوکیدار گھر کا دروازہ کھولنے کی اجازت دیتے تو مقتولہ گھر سے بھاگنے میں کامیاب ہو سکتی تھیں۔‘

باضابطہ ٹرائل کا آغاز اور مرکزی ملزم کی عدالتی کارروائی کے دوران گفتگو

عدالت میں چالان جمع ہونے کے تقریباً ایک مہینے بعد 14 اکتوبر کو تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی اور ٹرائل کا باضابطہ آغاز ہوا۔
اس سے قبل ملزمان نے اسلام آباد کی مقامی عدالت اور بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں فرد جرم عائد کرنے سے قبل استغاثہ سے شواہد کی تفصیلات اور دستاویزات دینے کے لیے درخواستیں دی تھیں۔
ٹرائل کے دوران مرکزی ملزم نے متعدد بار عدالت میں نازیبا الفاظ کا استعمال کیا اور پولیس سے ہاتھا پائی بھی ہوئی۔
ایک سماعت کے دوران ظاہر جعفر نے کہا کہ ’یہ عدالتی کارروائی ایک کٹھ پتھلی شو کے علاوہ کچھ نہیں، میں آپ کو موقع دے رہا ہوں کہ مجھے پھانسی دیں لیکن آپ اس معاملے کو لٹکا رہے ہیں۔ میں نے کبھی اپنی زندگی میں اتنے نااہل لوگ ایک کمرے میں نہیں دیکھے۔‘
عدالت کے حکم پر جب پولیس اہلکار ظاہر جعفر کو لے جانے لگے تو ان کی اور پولیس اہلکاروں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی، جس کو بنیاد بنا کر بعدازاں اسلام آباد پولیس نے عدالتی کارروائی میں دخل ڈالنے اور پولیس اہلکار سے ہاتھا پائی کرنے کے الزام میں ایک اور مقدمہ بھی ان پر درج کیا۔  

ٹرائل کے دوران مرکزی ملزم نے متعدد بار عدالت میں نازیبا الفاظ کا استعمال کیا (فوٹو: ٹوئٹر)

بعد ازاں مرکزی ملزم کے وکیل کی جانب سے دوران ٹرائل ملزم کی ذہنی حالت درست نہ ہونے سے متعلق ایک درخواست دائر کی گئی۔ جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ملزم کی ذہنی حالت درست نہیں اور متعدد بار عدالت کے سامنے بھی ملزم ایسی حرکتیں کر چکا ہے۔ عدالت ملزم کا ذہنی معائنہ کرنے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دے۔
عدالت نے مرکزی ملزم کی جانب سے اس درخواست کو رد کرتے ہوئے غیر ضروری قرار دیا تھا۔  
مرکزی ملزم کا حلیہ بھی ان چار ماہ کے دوران تبدیل ہوتا رہا اور ان کو ایک بار کرسی جبکہ ایک بار سٹریچر پر لٹا کر بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔ 
ایک سماعت کے دوران ملزم ظاہر جعفر نے عدالت میں پینے کا پانی نہ ہونے کی شکایت بھی کی اور جج کو مخاطب ہو کر کہا کہ اس عدالت میں پانی کا کوئی بندوبست کروا دیں۔
ملزم کے حلیے اور رویے میں بھی ٹرائل کے دوران تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں۔
ابتدائی سماعتوں پر ملزم کے بال لمبے اور داڑھی تراشی ہوئی تھی جبکہ وہ صرف انگریزی زبان میں گفتگو کرتے۔
لیکن کچھ سماعتوں کے بعد ان کے بال بڑھے ہوئے دیکھے گئے اور ان کا رویہ بھی تبدیل ہوتا گیا۔ وہ عدالت میں بھی کچھ بُڑبڑاتے اور پولیس کے ساتھ بھی دھکم پیل کرتے رہے۔
تاہم ٹرائل کے اختتام پر ملزم ظاہر جعفر کے بال بکھرے ہوئے اور داڑھی بھی بڑھی ہوئی تھی۔ وہ خاموشی سے عدالت کی کارروائی سنتے رہے اور اس پر کسی ردعمل کے اظہار سے گریز کیا۔

ٹرائل کے دوران اب تک کیا سامنے آیا؟  

فرد جرم عائد ہونے کے بعد نور مقدم کیس کا ٹرائل کا مرحلہ چار ماہ میں مکمل ہو چکا ہے۔ 
دوران ٹرائل تفتیشی افسر نے بتایا ہے کہ ’ملزم کے فوٹوگرامیٹری ٹیسٹ میں تصدیق ہو چکی ہے جبکہ ڈی این اے رپورٹ میں ریپ کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔‘
’جائے وقوعہ سے ایک پستول، میگزین اور چاقو برآمد کیا گیا ہے۔ چاقو اور پستول پر ملزم کے فنگر پرنٹس نہیں پائے گئے تاہم میگزین پر ملزم کے فنگر پرنٹس موجود ہیں۔‘
اس معاملے پر اسلام آباد پولیس کی جانب سے وضاحت بھی دی گئی ہے جس پر ملزمان کے وکلا کی جانب سے آئی جی اسلام آباد کے خلاف زیر التوا مقدمے میں بیان جاری کرنے پر کارروائی کی استدعا کی گئی ہے۔ 
دوران ٹرائل یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مقتولہ کا دو بار پوسٹ مارٹم کیا گیا تاہم ان کے قتل کے وقت کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔  
ٹرائل کے دوران جائے وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا ٹرانسکرپٹ بھی عدالت میں جمع کروایا گیا جبکہ بعد ازاں ملزمان کے وکلا کو بھی سی سی ٹی وی فوٹیج کی کاپی فراہم کی گئی۔  
13 نومبر کو سامنے آنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ’نور مقدم نے ملزم ظاہر جعفر کے گھر سے بھاگنے کی کوشش کی تاہم ملزم انہیں پکڑ کر دوبارہ زبردستی اندر لے گیا۔‘
’نور مقدم ملزم کے گھر سے باہر جانے کے لیے گیٹ پر آتی ہیں تاہم وہ گیٹ سے باہر جانے میں کامیاب نہیں ہو پاتیں اور سکیورٹی گارڈ کے کیبن میں چھپ جاتی ہیں۔‘
سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاتا ہے کہ 19 جولائی کی رات دو بج کر 39 منٹ پر ظاہر جعفر اور نور مقدم بڑے بیگ لے کر گھر کے مرکزی گیٹ سے باہر نکلتے ہیں، اور دو بج کر 40 منٹ پر باہر کھڑی ٹیکسی میں سامان رکھ کر دوبارہ واپس گھر کے اندر داخل ہوتے نظر آتے ہیں۔  
’رات دو بج کر 41 منٹ پر نور مقدم انتہائی گھبراہٹ اور خوف کی حالت میں ننگے پاﺅں اس گھر سے گیٹ کی طرف بھاگتی نظر آتی ہیں جبکہ ظاہر جعفر اندر سے تیزی سے گیٹ کی طرف آتا ہے اور نور مقدم کو دبوچ لیتا ہے۔‘

نور مقدم کیس کے ٹرائل کے دوران پاکستان کے بڑے شہروں میں مقتولہ کے حق میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوتے رہے (فوٹو: ٹوئٹر)

’اس پر نور مقدم ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کرتی نظر آتی ہیں جس کی پروا نہ کرتے ہوئے ظاہر جعفر نور مقدم کو زبردستی کھینچ کر گھر کے اندر لے جاتا ہے۔‘
رات دو بج کر 46 منٹ پر ظاہر جعفر اور نور مقدم گھر سے نکل کر مرکزی گیٹ پر آتے ہیں اور گیٹ سے باہر گلی میں کھڑی ٹیکسی میں دونوں کو بیٹھ کر جاتے دیکھا جا سکتا ہے۔  
رات دو بج کر 52 منٹ پر ظاہر جعفر اور نور مقدم اپنے بیگ لے کر اس گھر کے مرکزی گیٹ سے داخل ہو کر اندر گھر میں جاتے نظر آتے ہیں۔ اگلے روز 20 جولائی کو شام سات بج کر 12 منٹ پر ’نور مقدم فرسٹ فلور سے چھلانگ لگا کر گراونڈ فلور کی گیلری کے ساتھ لگے جنگلے پر گرتی نظر آتی ہیں۔‘
’وہ لڑکھڑاتی ہوئی مرکزی گیٹ کے پاس آتی ہیں اور باہر جانے کی کوشش کرتی ہیں۔ گیٹ پر موجود چوکیدار انہیں باہر نہیں جانے دیتا اور وہ گیٹ کو بند کر دیتا ہے۔‘
’اسی دوران ظاہر جعفر گھر کے فرسٹ فلور کے ٹیرس سے چھلانگ لگا کر گراؤنڈ فلور پر آ جاتا ہے اور دوڑ کر گیٹ کے قریب گارڈ کے کیبن میں چھپی نور مقدم کو کھینچ کر باہر نکالتا ہے اور ان کے ہاتھ سے موبائل فون چھینتا اور گھر کے اندر زبردستی کھینچ کر لے جاتا نظر آتا ہے۔‘
دوران ٹرائل تھیراپی ورکس کے وکیل نے دعویٰ کہ ملزم کو تھیراپی ورکس کے ورکرز نے پکڑ کر پولیس کی گاڑی میں ڈالا جبکہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ملزم کو پولیس کے اہلکاروں نے باندھا ہوا تھا۔  
تھیراپی ورکرز کے وکیل نے سی سی ٹی وی فوٹیج چلا کر اس معاملے پر جرح کی تاہم یہ عدالتی کارروائی ان کیمرا رہی ہے۔

ملزمان نے کیس میں اپنے میں دفاع کیا کہا؟

کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی جانب سے مختلف بیانات اپنے دفاع میں پیش کیے گئے۔ عدالتی کارروائی کے دوران ملزم کے وکیل کی جانب سے میڈیکل ان فٹ ہونے کا بھی دعویٰ سامنے آیا اور اس حوالے سے عدالت سے معائنہ کروانے کی درخواست کی گئی۔
تاہم عدالت نے اس درخواست کو مسترد کر دیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس درخواست پر فیصلہ دینے سے قبل جج نے ملزم کو کمرہ عدالت میں بھی طلب کیا تھا اور ان کیمرا عدالتی کارروائی کے دوران ملزم سے چند سوالات بھی پوچھے گئے تھے۔

مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سٹریچر اور کرسی پر بھی عدالت میں پیش کیا جاتا رہا ۔ (فوٹو: سکرین گریب)

مرکزی ملزم کی جانب سے ضابطہ فوجداری کے سیکشن 342 کے تحت ریکارڈ کیے گئے بیان میں بتایا تھا کہ ’وقوعہ والی رات ان کے گھر پر مقتولہ نے ڈرگ پارٹی رکھی ہوئی تھی اور منشیات کے زیادہ استعمال کے باعث وہ ہوش کھو بیٹھے تھے۔ تاہم جب ان کو ہوش آیا تو انہیں معلوم ہوا کہ نور مقدم کو ڈرگ پارٹی میں شرکت کرنے والوں میں سے کسی نے قتل کر دیا ہے۔ اس بیان کو ثابت کرنے کے لیے مرکزی ملزم کے وکلا نے مقتولہ کی میڈیکل رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ مقتولہ کے جسم میں ایسے مادہ کی تصدیق ہوئی ہے جو منشیات کے زائد استعمال کے باعث بنتا ہے۔‘
تاہم دفاع کے وکیل کے اس دعوے کو مدعی اور پراسیکیوشن کی جانب سے یہ کہہ کر رد کیا گیا ہے کہ ’جسم میں وہ مادہ صدمے اور پھیپھڑوں پر دباؤ کے باعث بنا ہے۔ جس وقت مقتولہ کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا تھا وہ شدید صدمے سے گزری ہوں گی اور ان کے پھیپھڑوں پر بھی دباؤ یقینی تھا۔‘
اس کے علاوہ ملزم کے وکیل نے ’مقتولہ پر بڑی مقداد میں منشیات جائے وقوعہ پر لانے کا الزام عائد کیا اور پولیس پر یہ الزام عائد کیا کہ تفتیش کاروں نے مقتولہ کا وہ سامان ریکارڈ پر نہیں لایا تاکہ کیس کا رخ تبدیل کیا جا سکے۔‘
جبکہ مدعی اور پراسیکیوشن کے وکلا کے مطابق جب مقتولہ جائے وقوعہ پہنچی تو ان کے پاس لیڈیز ہینڈ بیگ کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ جن بیگز کا ذکر ملزم کے وکیل کر رہے ہیں وہ سی سی ٹی وی فوٹیج اس وقت کی تھی جب ملزم اور مقتولہ ایئرپورٹ کے لیے گھر سے روانہ ہو رہے تھے۔ 
مرکزی ملزم کے وکیل کی جانب سے حتمی دلائل کے دوران وقوعہ کو غیرت کے نام پر قتل کا بھی اشارہ دیا گیا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’مقتولہ اور ملزم لیونگ ریلشن میں تھے اور اس حوالے سے دونوں خاندان آگاہ تھے۔ ہو سکتا ہے کہ جوان خون طیش میں آیا ہو اور اس نے کوئی ایسا قدم اٹھایا ہو۔‘
ملزم کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے دوران تفتیش مقتولہ کے اکلوتے بھائی کو شامل تفتیش نہ کرنے کا حوالہ دیا اور کہا کہ اے ایس آئی کے بیان کے مطابق جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو گھر کی بالائی منزل پر ’کچھ لوگ‘ موجود تھے جبکہ پوری تفتیش کے دوران یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ ’کچھ لوگ‘ کون تھے اور ان کو شامل تفتیشں کیوں نہیں کیا گیا۔‘
ملزم کے والدین کی جانب سے اپنے دفاع میں کال ریکارڈ ڈیٹا کو غیرتصدیق شدہ قرار دیا گیا ہے اور ریکارڈ کے حصول کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
وکیل کی جانب سے یہ کہا گیا ’کال ریکارڈ کا ڈیٹا موبائل کمپنیوں سے نہیں بلکہ ایس پی آفس سے حاصل کیا گیا جس پر کوئی دستخط یا مہر موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کال ریکارڈ دیٹا کو بطور ثبوت پیش کرنے کے حوالے سے ملزمان کے وکیل کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں کال ریکارڈ ڈیٹا بغیر ٹرانسکرپٹ کے ٹھوس ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔‘
پراسیکیوشن کی جانب سے اس معاملے پر کہا گیا ہے کہ کال ریکارڈ ڈیٹا حاصل کرنے کے حوالے سے کوئی ایس او پی موجود نہیں ہے اور عمومی طور پر ایس پی آفس سے ہی کالز کا ڈیٹا حاصل کیا جاتا ہے۔

ملزم کے والدین کی جانب سے اپنے دفاع میں کال ریکارڈ ڈیٹا کو غیرتصدیق شدہ قرار دیا گیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

اس کے علاوہ گھریلو ملازمین کے وکلا کی جانب سے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ انہوں نے مقتولہ کو گھر سے باہر جانے سے نہیں روکا اور نہ ہی یہ بات سی سی ٹی وی فوٹیج میں سامنے آئی ہے۔ ایک ملازم اپنے مالکان کو اطلاع ہی دے سکتا ہے اور انہوں نے ملزم کے والدین کو اس معاملے پر اطلاع دے دی تھی۔ 
کیس میں تھیراپی ورکس کے ملازمین اور سی ای او کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ ’تھیراپی ورکرز نے جائے وقوعہ سے شواہد مٹانے کی کوشش کی اور پولیس کو اطلاع نہیں دی جبکہ اس واقعے سے متعلق ملزم کے والدین نے انہیں آگاہ کر دیا تھا۔‘
تھیراپی ورکس کے ملازمین کے وکلا کی جانب سے یہ دفاع سامنے آیا ہے کہ ’کال ریکارڈ ڈیٹا کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں جو رابطہ ثابت کر سکے۔ تھیراپی ورکرز جائے وقوعہ پر والدین کے کہنے پر میڈیکل انٹرونشن کے لیے گئے تھے، اگر ان کا مقصد ثبوت مٹانا ہوتا تو ملزم ان کے اہلکار کو نہ چاقو مارتا اور نہ ہی وہ ملزم کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کرتے۔‘
تھیراپی ورکز کا یہ دعویٰ ہے کہ ’انہوں نے ظاہر جعفر کو رسیوں سے باندھ کر رکھا ہوا تھا اور پولیس کے آنے بعد انہوں نے مرکزی ملزم کو پولیس کی گاڑی میں بٹھایا۔‘
اکتوبر میں شروع ہونے والا ٹرائل 22 فروری کو اختتام  پذیر ہوا۔ چار ماہ کے اس عرصے کے دوران متعدد پیشیاں ہوئیں اور اب کیس کا فیصلہ 24 فروری ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں سنایا جائے گا۔ 

شیئر: