Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب رفیق تارڑ نے کہا ’چیف ایگزیکٹو میرا ماتحت ہے، اسےاستعفیٰ نہیں دوں گا‘

نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد رفیق تارڑ نے استعفیٰ دینے سے انکار کیا (فوٹو: اے ایف پی)
12 اکتوبر 1999 کو جب پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو اس وقت پاکستان کے صدر رفیق تارڑ تھے۔ شریف برادران اور مسلم لیگ (ن) کی اہم قیادت کی گرفتاریوں اور حکومت کے خاتمے کے بعد رفیق تارڑ نے بھی ایوان صدر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
اپنے فیصلے سے متعلق انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام ایک خط بھی ڈرافٹ کرایا جس میں انہوں نے مشرف کے غیرقانونی اور غیرآئینی اقدامات کے حوالے سے اہم نکات درج کرائے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے رفیق تارڑکے اس وقت کے پریس سیکرٹری عرفان صدیقی نے بتایا کہ چیف جسٹس کو خط ارسال کرنے سے قبل ’میں نے انہیں مشورہ دیا کہ نواز شریف کے والد میاں شریف گرفتار نہیں ہیں۔ اگر ان سے مشورہ کر لیا جائے تو بہتر ہوگا۔‘
صدر رفیق تارڑ نے کسی طرح سے میاں شریف کو پیغام بھجوایا اور اپنے فیصلے سے متعلق رائے مانگی۔  
عرفان صدیقی کے بقول میاں شریف کا جوابی پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے صدر رفیق تارڑ کو ایوان صدر چھوڑنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں آپ کی ضرورت پڑے گی۔‘  
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ’پھر ایک وقت آیا کہ یہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔ ایک دن جنرل مشرف اور چند دیگر جرنیل صدر رفیق تارڑ سے ملنے آئے اور کہا کہ ہمارے اوپر عالمی برادری کا دباؤ ہے۔ ہمیں نواز شریف کو باہر بھجوانا ہے۔آپ سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں کوئی قانونی راستہ نکالیں۔ جس پر صدر رفیق تارڑ نے نواز شریف کی سزا معاف کرنے کی تجویز دی۔‘  

رفیق تارڑ یکم جنوری 1998 سے 20 جون 2001 تک پاکستان کے 9 ویں صدر رہے (فائل فوٹو)

نواز شریف کی جانب سے سزا کی معافی کے لیے جو درخواست لکھی گئی وہ جنرل مشرف کے نام نہیں تھی بلکہ صدر رفیق تارڑ کے نام تھی۔ صدر رفیق تارڑ نے جب ان کی سزا کی معافی پر دستخط کیے تھے تب کہا تھا کہ ’شاید اللہ نے مجھے اسی دن کے لیے یہاں رکھا ہوا تھا۔‘  
2001 میں جب صدر رفیق تارڑ پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تو انہوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا۔ ایک شام جنرل مشرف نے صدر رفیق تارڑ کو پیغام بھجوایا کہ وہ اور کچھ ساتھی جرنیل ان کے ساتھ کھانا کھانا چاہتے ہیں۔ رفیق تارڑ نے ان کی دعوت کی اور بعدازاں ملاقات میں تمام جرنیلوں نے دباؤ ڈالا کہ آپ مستعفی ہو جائیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ 
باقی جرنیل روانہ ہوگئے تو آئی ایس آئی کے اس وقت کے ڈی جی جنرل محمود رک گئے انہوں نے صدر رفیق تارڑ کو قائل کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ آپ کا استعفیٰ ناگزیر ہوچکا ہے۔ رفیق تارڑ نے جواب دیا کہ ’میں آئینی طور پر اپنا استعفیٰ صرف سپیکر قومی اسمبلی کو بھیج سکتا ہوں۔ وہ اس وقت موجود نہیں ہیں، اس لیے میں کسی کو استعفیٰ نہیں دے سکتا۔‘
جنرل محمود نے تجویز دی کہ آپ چیف ایگزیکٹو کو استعفیٰ دے دیں۔ جس پر رفیق تارڑ نے جواب دیا کہ ’چیف ایگزیکٹو میرا ماتحت ہے اور میں اپنے ماتحت کو استعفیٰ کبھی نہیں دوں گا۔‘  

رفیق تارڑ جنوری 1998 میں پاکستان کے صدر بنے (فوٹو: اے ایف پی)

جب جنرل پرویز مشرف نے ایوان صدر پر قبضہ کر لیا تو رفیق تارڑ کو مجبوراً ایوان صدر چھوڑنا پڑا۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں انہیں پاکستان کا صدر قرار دیا تھا۔ خود رفیق تارڑ نے بھی لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تھا۔
2007 میں جب نواز شریف جدہ سے اسلام آباد آئے تھے، اس وقت اسلام آباد میں راجہ ظفرالحق کے گھر سے ایک ریلی ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوئی۔ پولیس نے ریلی کو زیرو پوائنٹ پر روک کر مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو گرفتار کر لیا تھا۔  
اس ریلی میں رفیق تارڑ بھی موجود تھے۔ یہ نمائندہ اس وقت وہاں ایک ٹی وی چینل کے لیے رپورٹنگ کے لیے موجود تھا۔ جب دیکھا کہ صدر رفیق تارڑ ہانپتے ہوئے زیر پوائنٹ چوک کی طرف جا رہے ہیں تو میں نے انہیں پانی پیش کیا اور سائے میں بٹھا کر اپنے چینل کے لیے ان کا انٹرویو کیا۔ انٹرویو کے آغاز پر جب میں نے ان کا تعارف سابق صدر پاکستان کی حیثیت سے کروایا تو انہوں نے کہا ’برخوردار! میں سابق نہیں بلکہ موجودہ صدر ہوں۔ پرویز مشرف نے مجھے ایوان صدر سے نکال کر وہاں قبضہ کیا ہوا ہے۔‘ 

رفیق تارڑ جنوری 1998 میں پاکستان کے صدر بنے (فوٹو: اے ایف پی)

صوبہ پنجاب کے شہر گکھڑ میں پیدا ہونے والے رفیق تارڑ  نے 1951 میں پنجاب لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ پاکستان کے نویں صدر تھے جو یکم جنوری 1998 سے 20 جون 2001 تک اس عہدے پر رہے۔  
رفیق تارڑ 17 جنوری 1991 سے یکم نومبر 1994 تک سپریم کورٹ کے جج  اور 6 مارچ 1989 سے 31 اکتوبر 1991 تک لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے۔ 
ان کے پریس سیکرٹری عرفان صدیقی کے بقول دوران صدارت صدر رفیق تارڑ نے اپنے فرائض منصبی انتہائی ایمانداری اور آئین و قانون کے مطابق چلائے۔  
عرفان صدیقی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جب وہ صدر مملکت منتخب ہو کر ایوان صدر آئے تو کروڑوں روپے کی گرانٹ آئی جس کے بارے میں انھیں بتایا گیا کہ وہ فرنیچر، پلنگ، پردے، کارپٹ وغیرہ کی تبدیلی اور تزئین و آرائش اپنی مرضی سے کروا سکتے ہیں لیکن انہوں نے تمام گرانٹ واپس کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام چیزیں جوں کی توں رہیں گی۔‘  

12 اکتوبر 1999 کو جب نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا گیا تو رفیق تارڑ اس وقت صدر تھے (فوٹو: سکرین گریب)

’یہاں تک کہ کلنٹن کے دورہ پاکستان سے قبل ملٹری سیکرٹری نے مجھے کہا کہ امریکی صدر آ رہے ہیں اور صدر کے دفتر کا کارپٹ پرانا ہے۔ آپ ان سے بات کریں تو اسے تبدیل کر دیا جائے۔ جب میں نے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہم غریب ملک ہیں اگر کارپٹ نیا ہوگا تو کلنٹن سے امداد مانگنے میں مشکل ہوگی، اس لیے اسے ایسا ہی رہنے دیں۔‘  
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ’وہ اپنے اختیارات کے معاملے میں اتنے باوقار تھے کہ نواز شریف دور میں بھی کئی ایک معاملات پر انہوں نے سمریاں روکیں لیکن ان پر کسی قسم کی نوٹنگ کرنے کے بجائے نواز شریف کو پیغام بھجواتے۔ نواز شریف آ جاتے تو وہ انہیں قانونی نکتہ سمجھاتے اور کہتے کہ نئی سمری بھجوا دیں، میں اس پر دستخط کر دوں گا۔‘

شیئر: