Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک عدم اعتماد، اجلاس کب بلایا جانا لازمی، ووٹنگ کب ہو سکتی ہے؟

اگر سپیکر چاہیں تو ووٹنگ کو 31 مارچ تک بھی لے جا سکتے ہیں (فوٹو اے پی پی)
پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں جمع تحریک عدم کے تحت اجلاس بلانے کی آئینی مدت 22 مارچ کو پوری ہو رہی ہے۔  
22 مارچ تک اجلاس نہ بلانے کی صورت میں سپیکر آئینی خلاف ورزی کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔ 
حکام کے مطابق حکومتی سطح پر فیصلہ ہوا ہے کہ 23 مارچ سے پہلے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں کروائی جائے گی تاکہ او آئی سی اجلاس اور یوم پاکستان کے موقع پر ملک میں سیاسی عدم استحکام نہ ہو اور اس حوالے سے حتمی انتظامات کو کوئی دھچکہ نہ پہنچے۔ 
22 اور 23 مارچ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں او آئی سی وزرائے خارجہ کا اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ اس لیے اسلام آباد میں غیر معمولی سکیورٹی انتظامات کے باعث 24 مارچ کو بھی چھٹی دی گئی ہے۔  
اس لیے آئینی تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے اجلاس کا انعقاد بظاہر 21 مارچ کو ہی بلانا ممکن ہے۔ اگر اسی دن تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے تو 25 مارچ کے بعد 29 مارچ سے پہلے ووٹنگ کرانا ہوگی۔  
 قومی اسمبلی کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری طاہر حنفی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’آئین کے مطابق سپیکر 22 مارچ سے پہلے اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو قومی اسمبلی قواعد میں اس خلاف ورزی کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ اپوزیشن اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کرکے تشریح کروا سکتی ہے۔‘ 
انھوں نے کہا کہ ’اجلاس بلانے کے لیے تو 14 دن کی شرط موجود ہے اور اس میں ویک اینڈ بھی شامل ہوتے ہیں۔ قواعد کے مطابق تو پہلے دن ہی وقفہ سوالات کے بعد اور دیگر بزنس سے پہلے تحریک عدم اعتماد پیش کرنا لازمی ہے، تاہم موجودہ صورت حال میں سپیکر کے پاس یہ موقع موجود ہے کہ رکن قومی اسمبلی خیال زمان کی وفات کی وجہ سے روایت کی پیروی میں 21 کو اجلاس بلا کر تلاوت و نعت کے بعد دعا ہو اور وہ اجلاس ملتوی کر دیں۔‘  
’چونکہ اگلے تین دن اسلام آباد میں مقامی چھٹی ہے۔ قومی اسمبلی کا ہال بھی دستیاب نہیں اور خود قومی اسمبلی نے اس کے استعمال کی اجازت دی ہے تو ایسی صورت میں اجلاس جمعہ 25 مارچ تک ملتوی کر دیں۔ جمعہ کو جب اجلاس ہوگا تو اس میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت ملے گی اور پیش ہوگی تو سپیکر اس پر بحث کے لیے وقت کا تعین کریں گے اور ممکن ہے کہ اس دن بحث بھی ہو جائے۔‘
ان کے مطابق ’اگلے دو دن بھی قومی اسمبلی سے چھٹی ہوگی تو قواعد کے مطابق 29 مارچ کی شام کو تین دن پورے ہو جائے گے اور ووٹنگ ہو سکتی ہے، تاہم قواعد کے مطابق ووٹنگ تین دن کے بعد اور سات دن سے پہلے ہونی ہے اور اگر سپیکر چاہے تو ووٹنگ کو 31 مارچ تک بھی لے جا سکتے ہیں۔‘  

اجلاس بلائے جانے کی ریکوزیشن کے 14 روز کے اندر سپیکر اجلاس بلانے کے پابند ہیں (فوٹو ٹوئٹر)

دوسری جانب سپیکر آفس کی جانب سے قومی اسمبلی حکام کو اجلاس بلانے کے حوالے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق سپیکر آفس کی جانب سے اجلاس بلانے کا نوٹیفکیشن کسی بھی وقت جاری ہو سکتا ہے۔  
خیال رہے کہ آئین کے آرٹیکل 54 کی شق تین کے تحت قومی اسمبلی کے ایک چوتھائی ارکان کی جانب سے اجلاس بلائے جانے کی ریکوزیشن کے 14 روز کے اندر سپیکر اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔ 

شیئر: