Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نقش و نگار والے دروازوں کے ’خریدار کم ہو گئے‘

نقش ونگار والے دروازے اب گوداموں اور لکڑی کی دکانوں پر کباڑ کی صورت میں پڑے ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز
آج سے چند سال پہلے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے پرانے نقش و نگار سے آراستہ لکڑی کے قدیم دروازے ملک بھر میں منگوائے جاتے تھے۔
ان دروازوں کے مقامی چاہنے والے تو ایک طرف پاکستان میں رہنے والے غیر ملکی بھی ان کے دلدادہ تھے اور ان کو خریدنے کے لیے تلاش جاری رکھتے تھے، لیکن بدلتے وقت کے ساتھ ان دروازوں کی اہمیت کم ہو رہی ہے۔
یہ خوبصورت نقش ونگار والے دروازے جو ماضی میں ہر گھر کی دہلیز پر آنے والوں کا استقبال کرتے تھے، اب چند گوداموں اور لکڑی کی دکانوں پر کباڑ کی صورت میں پڑے ہیں۔
یہاں تک کہ یہ دروازے  بنانے اور ان پر خوبصورت نقش ونگار کنندہ کرنے والے فنکاروں کو یہ فن ہی ختم ہوتا دکھائی دینے لگا ہے۔
ماضی کی ثقافت ان دروازوں سے آج بھی جھانک رہی ہے مگر اب اس میں دلچسپی لینے والے بہت کم لوگ رہ گئے ہیں۔
پشاور کے مضافاتی علاقے چارسدہ روڈ کے رہائشی یاسین خان بھی اس کاروبار سے وابستہ ہیں اور اس کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کے والد پچھلے 25 برس سے پرانے دروازوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ’پہلے پشاور کے اندرون شہر اور سوات، دیر اور مختلف علاقوں سے پرانے دروازے خرید کر یہاں لاتے تھے لیکن جدید دور اور نئی آبادیوں کے بننے کے ساتھ نہ صرف یہ پرانے دروازے ناپید ہوتے جا رہے ہیں بلکہ خیبر پختونخوا حکومت نے بھی ان کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔‘
یاسین خان نے بتایا کہ ’اب میرے والد پنجاب کے مختتلف شہروں جیسے چکوال، جہلم اور گجرات وغیرہ جا کر وہاں کی پرانی آبادیوں سے یہ قدیم ثقافتی دروازے خرید کر لاتے ہیں۔‘

یہ دروازے  بنانے اور ان پر خوبصورت نقش ونگار کنندہ کرنے والے فنکاروں کو یہ فن ہی ختم ہوتا دکھائی دینے لگا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

یاسین خان کے مطابق ’ایک وقت تھا جب پشاور میں غیر ملکی سیاح بنا کسی پریشانی کے آزاد گھومتے تھے، وہ ان قدیم دروازوں کے شوقین تھے اور اس وقت ہم غیر ملکیوں کی مانگ پوری نہیں کر پاتے تھے اور اب یہ حال ہے کہ کوئی بھی نہیں آتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری اس منڈی میں وہ دروازے اب بھی موجود ہیں جو ہم نے 10 15 سال پہلے لیے تھے کیونکہ اب ان کو خریدنے والا کوئی نہیں۔ اور نہ ہی ہم ان کو بیرون ملک بھیج سکتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں پرانے دروازوں کے شوقین دو تین فیصد ہیں۔ اس لیے حکومت کو ثقافتی ورثے کے نام پر لگائی جانے والی پابندی ختم کر کے ان کی برآمد کی اجازت دینی چاہیے۔‘
یاسین خان کے مطابق اب مہنگائی کی وجہ سے لوگ ان دروازوں کو مہنگے داموں بیچتے ہیں۔

یاسین خان کے والد چکوال، جہلم اور گجرات وغیرہ جا کر وہاں کی پرانی آبادیوں سے یہ قدیم ثقافتی دروازے خرید کر لاتے ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

’پہلے ہم مختلف علاقوں سے یہ دروازے 40، 50 ہزار روپے میں خرید لیتے تھے۔ لیکن اب بیچنے والے زیادہ دام مانگ رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی اور پابندی کی وجہ سے اب وہ پرانے دروازے بیچنے کی بجائے اسی طرز پر لکڑی کے نئے دروازے بناتے ہیں اور ان پر نقش و نگار کر کے بیچتے ہیں۔
یاسین خان کا ماننا ہے کہ اگر حکومت ان کی باضابطہ طور پر برآمد شروع کر دے تو زر مبادلہ پاکستان آ سکتا ہے۔

شیئر: