Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک عدم اعتماد، سپریم کورٹ کا تمام پارلیمانی جماعتوں کو نوٹس

پاکستان کی سپریم کورٹ نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو سندھ ہاؤس میں پیش آنے والے واقعے کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد ایک سیاسی عمل ہے اور تمام سیاسی جماعتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں گی۔
سنیچر کو سپریم کورٹ نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں اسلام آباد میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ 
چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی عدالتی بینچ نے دن ڈیڑھ بجے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو طلب کر کے حکومت کا مؤقف سنا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ گزشتہ شام سندھ ہاؤس میں جو کچھ ہوا وہ قابل افسوس ہے اور تشدد کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کوئی ازخود نوٹس نہیں، عدالت کے سامنے ایک درخواست موجود ہے۔
عدالت میں اسلام آباد پولیس کے سربراہ اور سیکریٹری داخلہ بھی موجود تھے۔
چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل منصور اعوان سے کہا کہ ان کی درخواست کو سنا جا رہا ہے۔ ’آپ کی درخواست میں ہے کہ تمام متعلقہ حکام کو عدم اعتماد کے آئینی عمل میں مداخلت سے روکا جائے اور امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کا حکم دیا جائے۔‘ 
چیف جسٹس نے سیاسی صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جو کچھ ہو رہا ہے ہمیں اس سے مطلب نہیں۔ یہاں آئین کے تحفظ کے لیے بیٹھے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا وہ کوئی صدارتی ریفرنس دائر کر رہے ہیں؟۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیاسی عمل کا پرامن ہونا نہایت اہم ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ گزشتہ روز فیصلہ ہوا ہے کہ پارٹی وفاداری بدلنے کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس دائر کیا جائے گا۔ اس کو تیار کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’جب عدالت کے سامنے معاملہ آئے گا تو اس کو سنیں گے۔ ہمارے سامنے اس وقت یہ معاملہ ہے کہ گزشتہ شام جو کچھ ہوا وہ اظہار رائے کی آزادی اور قانونی احتجاج سے بڑھ کر تھا۔‘ 
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ عدالت کو اس واقعے کا پس منظر بتانا چاہیں گے کہ تحریک انصاف کے بعض اراکین کو سندھ ہاؤس میں رکھا گیا تھا جس کی پہلے پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی نے ایک پریس کانفرنس میں تردید کی تھی۔ یہ معاملہ ہارس ٹریڈنگ کے ایک پرانے مرض کی نشاندہی ہے۔ یہ ایک الزام ہے اور اس کے بعد ہی سیاسی صورتحال میں گرمی پیدا ہوئی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تاہم وہ اس تمام تر صورتحال میں تشدد کی توجہیہ پیش نہیں کر رہے اور تشدد کی کسی صورت بھی گنجائش نہیں۔
عدالت کے پوچھنے پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 100 کے لگ بھگ افراد پریس کلب کے سامنے احتجاج کر رہے تھے جن میں سے 20 سے 25 افراد سندھ ہاؤس پہنچے اور تشدد میں ملوث ہوئے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے مقدمہ درج کر کے 13 افراد کو گرفتار کیا اور سنیچر کی صبح ان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ جرم کے بعد کیا مقدمے میں لگائی گئی تمام دفعات قابل ضمانت تھیں؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کی یقین دہانی کرائی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ غیر قانونی طور پر اکھٹا ہونے کی دفعہ سمیت کئی دفعات لگائی گئیں جو قابل ضمانت تھیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کیا بلوہ کرنا، دھاوا بولنا اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانا قابل ضمانت جرم ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون میں اس کی سزا دو سال قید ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی عمل کا پرامن ہونا نہایت اہم ہے۔ ’احتجاج حق ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پبلک پراپرٹی یا قومی اداروں کو خطرے میں ڈالا جائے، خواہ کوئی بھی کرے یہ آئین و قانون کے خلاف ہے۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں تحمل کا مظاہرہ کریں گی۔ جہاں تک آئین کے آرٹیکل 63 اے کا تعلق ہے اس کو الگ سے سنیں گے۔ امن وامان برقرار رکھنے کے لیے لائی گئی اس درخواست کا صدارتی ریفرنس سے تعلق نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت کا پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرینز کے لیے بہت احترام ہے۔
چیف جسٹس نے سندھ ہاؤس پر دھاوے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’قانون کو توڑا گیا اور وفاق کی ایک اکائی نشانہ بنی، نقصان پہنچایا گیا۔ ہم نے یہ سب ٹی وی پر دیکھا، اسلام آباد پولیس کے سربراہ رپورٹ دیں گے کہ کیا ہوا۔‘ 
سماعت کے اختتام پر عدالتی حکم نامے میں لکھوایا گیا کہ ’گزشتہ شام اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع سندھ ہاؤس میں ناخوشگوار واقعات پیش آئے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ گیٹ توڑنے پر مقدمے کا اندراج کیا گیا۔ 13 افراد کو گرفتار کیا گیا جن کو بعد ازاں ضمانت پر رہا کیا گیا۔‘
عدالتی حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور یقین دہائی کرائی کہ حکومت امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے تمام اقدامات کرے گی۔
’جہاں تک آرٹیکل 95 کے تحت سیاسی عمل کا تعلق ہے اس وقت عدالت اس کو نہیں دیکھ رہی۔ اس پر قانون کے مطابق عمل کیا جائے۔ فی الوقت عدالت کی توجہ گزشتہ رات پیش آنے والے واقعے پر ہے عوامی مفاد میں اس کو دیکھ رہے ہیں۔‘ 
عدالت نے حکم نامے میں لکھا کہ اسلام آباد پولیس کے سربراہ سندھ ہاؤس میں پیش آنے والے واقعے پر رپورٹ دیں گے اور بتائیں گے کہ کیا یہ قابل ضمانت جرم تھا۔
عدالتی حکم کے مطابق ’اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے تاحال ایسا کچھ نہیں کیا تاہم یہ توقع کی جاتی ہے کہ کوئی بھی غیر قانونی عمل نہیں کیا جائے گا۔ عدالت کے سامنے فی الوقت کوئی بھی سیاسی جماعت موجود نہیں۔ تحریک عدم اعتماد میں فریق تمام سیاسی جماعتوں کا مؤقف سنا جائے گا۔ اس کے لیے تمام پارلیمانی جماعتوں کو نوٹس بھیجا جاتا ہے۔‘

شیئر: