Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا آپ کی بھی کوئی ’لائف لسٹ‘ ہے؟ عامر خاکوانی کا کالم

فلم میں الیکس روز کا کردار دلکش اداکارہ صوفیہ کارسن نے نبھایا ہے۔ (فوٹو: نیٹ فلکس)
کہانی یوں شروع ہوتی ہے کہ ایک کاسمیٹکس کمپنی کی مالک کروڑ پتی خاتون کا انتقال ہوتا ہے، ان کی وصیت ان کا وکیل پڑھ کر سناتا ہے، بیشتر جائیداد دونوں بیٹوں کے نام کر دی جاتی ہے، وکیل اکلوتی بیٹی کو بتاتا ہے کہ آپ کے لیے مرحومہ کی جائیداد میں کچھ نہیں رکھا گیا بلکہ کمپنی میں جو مارکیٹنگ کی جاب آپ کرتی تھیں، وہ بھی ختم ہو گئی اور اب سے آپ کی بھابھی یہ جاب کرے گی۔ پھر وکیل نے ہکا بکا بیٹھی بیٹی کو بتایا کہ ان کی ماں نے ان کے لیے الگ سے ایک لفافہ دیا ہے۔ لڑکی جس کا نام الیکس روز بتایا گیا، وہ پیکٹ لے کر اپنے کمرے میں جاتی ہے، کھولنے پر ایک سی ڈی اور خط ملتا ہے۔
اس ڈی وی ڈی /سی ڈی کے ذریعے والدہ اس سے مخاطب ہو کر بتاتی ہے کہ تم نے 13 برس کی عمر میں جب سکول میں پڑھتی تھی، تب اپنی ایک لائف لسٹ بنائی تھی، ان خواہشات کی فہرست جو تم اپنی زندگی میں کرنا چاہتی تھی۔ وہ لسٹ مجھے کچھ عرصہ قبل پرانے کاغذات سے ملی اور مجھے شدید افسوس ہوا کہ تم نے اس میں سے کچھ بھی نہیں کیا۔ زندگی کے جھمیلے میں وہ سب کچھ تم بھول گئی جو دل سے کرنا چاہتی تھی۔ میں تمہیں ایک موقع دینا چاہتی ہوں کہ اپنی وہ لائف لسٹ پوری کرو۔ وہ جو تم کرنا چاہتی تھی، مگر ہمت نہیں پڑی۔ شرم، ججھک، ہچکچاہٹ، موقع نہ ملنے یا کسی بھی وجہ سے تم نہیں کر پائی، اب وہ کر گزرو۔ ہر وش کے مکمل ہونے کے بعد میرا وکیل تمہیں اگلی ڈی وی ڈی دے گا۔ سال کے آخر تک اگر تم نے اپنی لائف لسٹ کے کم از کم 12 اہداف (گول) حاصل کر لیے تو پھر تم میری وراثت کی حقدار ہو سکو گی، ورنہ نہیں۔
آگے خاصا کچھ چلتا ہے، دو ڈھائی گھنٹے کی یہ فلم ہے۔ کس سٹریمنگ چینل پر ہے، اچھی، بری یا درمیانی، اس پر ہم کوئی بات نہیں کرتے کہ ہمارا یہ موضوع نہیں اور نہ ہی یہ کوئی فلم ریویو ہے۔ یہ کہانی دراصل ایک انگریزی ناول سے ماخوذ ہےجس کو فلمایا گیا۔
مجھے اس میں سب سے اہم بات وہ وش یا لائف لسٹ لگی جو ایک نوعمر لڑکی نے تب بنائی جب زندگی اس کے خون میں دوڑتی تھی اور وہ بہت کچھ کرنے کا عزم رکھے ہوئے تھی۔ بعد میں وہ سب دھرے کا دھرا رہ گیا۔ البتہ لڑکی کی کینسر سے مرتی ماں کے دل میں اس خواہش نے جنم لیا کہ اپنی بیٹی کے دل میں پھر سے امنگیں، خواہشات جگائے، کچھ کر گزرنے کا عزم، اپنی مرضی سے زندگی جینے کا جذبہ۔
کہانی کے مطابق الیکس روز (یہ کردار دلکش اداکارہ صوفیہ کارسن نے نبھایا) نے ایک ایک کر کے اپنی لائف لسٹ پوری کر لی۔ یہ لسٹ بھی دلچسپ تھی۔ نوعمر الیکس کو پڑھانا بہت پسند تھا اور وہ ایک بہت اچھی ٹیچر بننا چاہتی تھی جو بچوں کو محبت اور توجہ سے پڑھائے۔ زندگی کی مصروفیت میں اس کا یہ شوق پیچھے رہ گیا اور بعد میں اس نے اپنی ماں کی کمپنی میں مارکیٹنگ کی جاب کر لی، حالانکہ اسے مارکیٹنگ کا کام قطعی پسند نہیں تھا۔ اب وش لسٹ پوری کرنے کی خاطر اس نے کوشش کی۔ اسے پتہ چلا کہ ایک سکول میں کوئی ٹیچر چند ہفتوں کے لiے کہیں جا رہا تھا، الیکس نے اس عارضی جاب کو قبول کر لیا اور اتنی محنت اور شوق سے پڑھایا کہ تمام بچے اس کے گرویدہ ہو گئے۔
ایک وش پیانو سیکھنے اور ایک خاص دھن بجانے کی تھی۔ الیکس نے اپنے لڑکپن میں پیانو سیکھنے کی کوشش کی تھی، مگر پھر اسے چھوڑ دیا۔ اب وش پوری کرنے کی خاطر اس نے پیانو سیکھنا شروع کیا اور پھر چھوٹے بچوں کے سامنے وہ مشہور دھن بجائی۔ ایک وش لوگوں کی مدد کرنے اور ان میں تبدیلی لانے کی تھی۔ یہ ظاہر ہے ایک اوپن اور مبہم سی بات ہے، مگر 13 سالہ بچی کے نیک دل اور ہمدرد ہونے کی علامت تھی۔ خیر الیکس نے ایک فنڈ ریزنگ کمپین میں حصہ لیا اور کئی نادار خاندانوں کی مدد کی۔
ایک مزے کی شرط کم از کم زندگی میں ایک بار سٹینڈ اپ کامیڈی کرنے کی ہے۔ کہانی کے مطابق الیکس نے 13 برس کی عمر میں دو چار لطیفے بھی تخلیق کیے تھے جو اس نے سٹینڈ اپ کامیڈی میں سنانے تھے۔ آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کس قدر مشکل کام ہے۔ تقریر کرنا بھی آسان نہیں، مگر کسی مجمع میں کھڑے ہو کر انہیں ہنسانا تو ایک خاصا کٹھن اور مشکل ٹاسک ہے۔ آپ اپنی طرف سے جو عمدہ لطیفہ یا چٹکلہ سنائیں، ممکن ہے اس پر کوئی بھی نہ ہنسے۔ الیکس روز نے خیر محنت سے کام لیا، راتوں کو جاگ جاگ کر پھر سے نئے لطیفے لکھے، انہیں سنانے کی پریکٹس کی، دیگر سٹینڈ اپ کامیڈینز کی ویڈیوز دیکھیں اور پھر ایک شو میں پرفارم کر دیا۔ یہ آسان کام نہیں تھا۔ الیکس کی کارکردگی اوسط رہی، بعض لوگوں نے اسے ہوٹ کرنے کی کوشش کی، مگر اس نے جرات مندی سے ان کا مقابلہ کیا اور ترکی بہ ترکی جواب دیے، اس کے فی البدیہہ شگفتہ جوابات نے آڈینس کو ہنسے پر مجبور کر دیا اور یوں وہ کامیاب ٹھہری۔
اس لائف لسٹ کے بعض اہداف جذباتی بھی تھے۔ الیکس کی اپنے والد کے ساتھ نہیں بنتی تھی، بچپن ہی میں ماں باپ میں علیحدگی ہو گئی، اس نے مگر 13 سال کی عمر میں لائف لسٹ میں لکھا تھا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ری یونین کرے گی اور ان سی اپنی خفگی ختم کر لے گی۔ وہ ایسا نہیں کر پائی، مگر اب لائف لسٹ پر عمل کرتے ہوئے اپنے باپ سے ملی، رنجش دور ہو گئی اور وہ بہت ریلیکس محسوس کرنے لگی۔ ایک شرط چودھویں کی چاندنی میں آوٹ ڈور کیمپنگ کرنے کی تھی۔ اس کے بھائی نے اس کا ساتھ دیا اور اپنے گھر کے عقبی صحن میں کیمپنگ کا انتظام کر کے یہ خواہش پوری کرا دی۔
ایک وش نیویارک کے ایک معروف باسکٹ بال کلب کے کھلاڑی کے ساتھ ون آن ون باسکٹ بال کھیلنے کی تھی۔ بظاہر تو یہ شائد ناممکن لگ رہا تھا، جیسے راجن پور کا کوئی بچہ بابر اعظم کے ساتھ ون وکٹ مقابلہ کھیلنے کا سوچے۔ الیکس نے مگر فنڈ ریزنگ کے دوران اس باسکٹ بال کھلاڑی کو ایک دوستانہ میچ کھیلنے پر رضامند کر لیا۔ الیکس نیویارک کے بہت سے مکینوں کی طرح ڈرائیونگ نہیں جانتی تھی۔ اپنی ایک وش لسٹ کو پورا کرتے ہوئے اس نے ڈرائیونگ بھی سیکھی اور نیویارک کی رش سے بھری سڑکوں پر گاڑی چلائی۔
مجھے سب سے دلچسپ وش مشہور امریکی مصنف ہرمین میلول کے شہرہ آفاق ناول موبی ڈک کو پڑھنا تھا۔ موبی ڈک ایک کمال کا ناول ہے جس پر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ اس کی کہانی ایک دیوھیکل سفید وھیل کے گرد گھومتی ہےجس نے کئی جہاز الٹائے۔ ایک تجربہ کار ملاح اور جہاز کا کپتان اپنی زندگی میں ’موبی ڈِک‘ نامی اس وھیل سے انتقام لینا چاہتا ہے۔
موبی ڈک ناول کا پروفیسر محمد حسن عسکری مرحوم نے کمال کا اردو ترجمہ بھی کر رکھا ہے۔ برسوں پہلے مجھے اس ترجمے کو پڑھنے کا موقعہ ملا تو کئی دنوں تک سحرزدہ رہ گیا۔ بعد میں اس پر بنی فلم کو بھی دیکھا۔ مجھے ستار طاہر کی سو عظیم کتابیں پڑھ کر موبی ڈک پڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی۔ تاہم اس کہانی میں الیکس روز وش کرتی ہے کہ نصاب میں شامل اس ناول کا ایک ایک لفظ پڑھنا ہے، کیونکہ وہ اسے مشکل لگتا تھا۔ اب 12 14 برس بعد وہ پھر سے ناول خریدتی اور اسے ہر جگہ اٹھائے پھرتی ہے، ٹرین میں، ریسٹوران میں، گھر، ہر جگہ اسے پڑھتی رہتی ہے۔ آخرکار اسے پڑھ ڈالتی ہے۔
وش لسٹ میں دو تین مزید اہداف بھی تھے، وہ سب اس نے پورے کر ڈالے۔ آخر میں الیکس کو اپنی والدہ کی جانب سے لاکھوں ڈالر مالیت کا خاندانی گھر وراثت میں ملا، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف چند ماہ کی اپنی لائف لسٹ پوری کرنے کے سفر نے اسے یکسر بدل دیا تھا۔ وہ اپنی پسند کی جاب شروع کر لیتی ہے، ایک چھوٹے فلیٹ میں شفٹ ہو گئی اور اپنی ماں کی پرتعیش جائیداد اور دیگر مادی مفادات سے وہ ایک طرح سے ماورا ہو گئی۔ اس کی روح کی تشنگی بجھ گئی اور اس نے زیادہ بامقصد اور بامعنی زندگی گزارنے کا آغاز کر دیا۔
مجھے اس فلم نے اپنے اندر جھانکنے اور اپنی وش لسٹ کا جائزہ لینے کا موقعہ فراہم کیا۔ میں سوچتا رہا کہ 13 14 یا 16 سال کی عمر میں کیا لائف لسٹ تھی اور کس حد تک پوری ہوئی؟ مجھے یہ تو خوشی ہوئی کہ اپنی پسند کا پروفیشن اختیار کیا۔ میں ہمیشہ سے کالم نگار، تجزیہ کار بننا چاہتا تھا، کتابوں سے گھرے گھر میں رہنا اور لفظوں کے سمندر میں جزیرہ بنا کر رہنا چاہتا تھا۔ الحمداللہ ویسا ہی ہوا۔ 30 سال صحافت میں گزر گئے، وہاں بھی میگزین جرنلزم کو اختیار کیا۔ کالم لکھتے 21 برس ہو گئے۔ چار کتابیں شائع ہو گئیں، دو کتابیں زیرِطبع ہیں۔ یہ کسی حد تک دل خوش کن لگا۔
بعض چیزیں البتہ تشنہ اور ادھوری بھی رہ گئیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب لاہور آیا اور گوئٹے انسٹی ٹیوٹ میں اجوکا کے ڈرامے دیکھے تو شدید خواہش پیدا ہوئی کہ اس طرح کے کسی تھیٹر گروپ کا حصہ بنا جائے، ان کے لیے لکھا جائے، سٹریٹ تھیٹر وغیرہ کروں۔ ایسا کچھ نہیں کیا۔ اس جانب جانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اسی طرح جب لاہور آیا تو یہ شہر نامی گرامی علمی، ادبی ، سیاسی شخصیات کا مرکز تھا۔ خواہش کے باوجود ان سے کماحقہ استفادہ نہیں کیا۔ کئی بڑے لوگوں سے تو ایک بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ ایسا نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی سمجھ نہیں آئی۔ تساہل ہی سمجھ لیں یا پھر کسی ہم مزاج دوست کا نہ ملنا، جس کے ساتھ مل کر یہ سب کام تیزی سے ہوجاتے۔
میں نے یہ فہرست اور فلم ایک ادیب دوست سے شیئر کی۔ انہوں نے ایک تجربہ کرتے ہوئے اپنے کئی دوستوں اور عزیزوں کو ایک سوال نامہ بنا کر بھیجا اور پوچھا کہ آپ کی بھی ایسی کوئی لائف لسٹ تھی جو اپنےبچپن یا لڑکپن میں بنائی اور پھر زندگی نے اس پر عمل کرنے کا موقع نہیں دیا؟
ہمارے ان دوست کو ملنے والا فیڈ بیک دلچسپ تھا۔ پتہ چلا کہ سوال نامہ پڑھنے والی ہر خاتون کے پاس نہ صرف پرانی لائف لسٹ تھی بلکہ ان کے پاس جدید اور جدید ترین وش لسٹ بھی موجود تھی، جس پر عمل نہ ہونے کا انہیں دائمی شکوہ تھا۔ ظاہر ہے یہ شکوہ اپنے شریک حیات، سسرال، میکے، بچوں وغیرہ کے علاوہ پوری کائنات اور اس میں گردش کرنے والے ہر ذرے سے تھا۔ جبکہ جن مرد حضرات کو یہ سوال نامہ بھیجا گیا، وہ یہ سن کر حیران ہوئے کہ وش لسٹ/لائف لسٹ، یہ بھلا کیا چیز ہے؟ بعض بھنائے کہ کم بخت یہ کیا موضوع چھیڑ دیا، کیوں بجھی ہوئی راکھ کو کرید رہے ہو، اب کوئی چنگاری بھی نہیں ملنی۔ ایک دو نے تو ناگواری سے کہا، بھیا ہم تو زندگی کے سروائیول کی جنگ میں مصروف ہیں، وش لسٹ وغیرہ کی عیاشی سے ہمارا کیا سروکار؟
ہمارے یہ دوست جو صحافی اور ادیب ہیں، انہوں نے مجھے وہ ریسپانس شئیر کیا اور کرب سے بولے کہ وش لسٹ ایک طرح کا خواب ہی ہے۔ اگر آدمی خواب دیکھنا ہی بند کر دے، اس کی زندگی میں وش لسٹ یا لائف لسٹ ہی مفقود ہو جائے تو پھر وہ چلتے پھرتے گوشت پوست کے پیکر ہی ہیں، زندگی ان سے تحلیل ہوچکی۔
میں کیا کہتا، بس سوچتا ہی رہا۔ یہی سوال آپ پڑھنے والوں کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ کیا آپ کی زندگی میں بھی کوئی لائف/وش لسٹ موجود ہے؟
کیا ایسا ہے کہ آپ نے لڑکپن میں جو کچھ سوچا، عزم کیا، اس پر عمل ہی نہیں کر پائے؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ آپ جیتے جی اپنی اس پرانی لسٹ کو جھاڑ پونچھ کر نکالیں اور اس میں سے جو اہداف اب حاصل ہو سکتے ہیں، وہ ہی کر گزریں؟ یا آپ بھی خواب دیکھنا بند کر چکے ہیں اور سرتا پا عمل کی چادر اوڑھ چکے ہیں؟

شیئر: