کہانی یوں شروع ہوتی ہے کہ ایک کاسمیٹکس کمپنی کی مالک کروڑ پتی خاتون کا انتقال ہوتا ہے، ان کی وصیت ان کا وکیل پڑھ کر سناتا ہے، بیشتر جائیداد دونوں بیٹوں کے نام کر دی جاتی ہے، وکیل اکلوتی بیٹی کو بتاتا ہے کہ آپ کے لیے مرحومہ کی جائیداد میں کچھ نہیں رکھا گیا بلکہ کمپنی میں جو مارکیٹنگ کی جاب آپ کرتی تھیں، وہ بھی ختم ہو گئی اور اب سے آپ کی بھابھی یہ جاب کرے گی۔ پھر وکیل نے ہکا بکا بیٹھی بیٹی کو بتایا کہ ان کی ماں نے ان کے لیے الگ سے ایک لفافہ دیا ہے۔ لڑکی جس کا نام الیکس روز بتایا گیا، وہ پیکٹ لے کر اپنے کمرے میں جاتی ہے، کھولنے پر ایک سی ڈی اور خط ملتا ہے۔
اس ڈی وی ڈی /سی ڈی کے ذریعے والدہ اس سے مخاطب ہو کر بتاتی ہے کہ تم نے 13 برس کی عمر میں جب سکول میں پڑھتی تھی، تب اپنی ایک لائف لسٹ بنائی تھی، ان خواہشات کی فہرست جو تم اپنی زندگی میں کرنا چاہتی تھی۔ وہ لسٹ مجھے کچھ عرصہ قبل پرانے کاغذات سے ملی اور مجھے شدید افسوس ہوا کہ تم نے اس میں سے کچھ بھی نہیں کیا۔ زندگی کے جھمیلے میں وہ سب کچھ تم بھول گئی جو دل سے کرنا چاہتی تھی۔ میں تمہیں ایک موقع دینا چاہتی ہوں کہ اپنی وہ لائف لسٹ پوری کرو۔ وہ جو تم کرنا چاہتی تھی، مگر ہمت نہیں پڑی۔ شرم، ججھک، ہچکچاہٹ، موقع نہ ملنے یا کسی بھی وجہ سے تم نہیں کر پائی، اب وہ کر گزرو۔ ہر وش کے مکمل ہونے کے بعد میرا وکیل تمہیں اگلی ڈی وی ڈی دے گا۔ سال کے آخر تک اگر تم نے اپنی لائف لسٹ کے کم از کم 12 اہداف (گول) حاصل کر لیے تو پھر تم میری وراثت کی حقدار ہو سکو گی، ورنہ نہیں۔
مزید پڑھیں
-
وہ چیزیں جن سے بچے محروم ہیں، عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 891944