Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سٹرانگ ’زیلینسکی‘ چائے، انڈیا میں یوکرینی صدر کے نام پر چائے کا برانڈ

بہت سی جنگیں ایک چائے کے کپ پر بات چیت میں ختم ہو چکی ہیں۔ فوٹو عرب نیوز
انڈیا میں چائے کی پتی تیار کرنے والی ایک کمپنی نے اپنی چائے کی نئی برانڈ کا نام یوکرین کے صدر وولودمیر زیلنسکی کے نام پر رکھ دیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق  چائے کی پتی کے نئے برانڈ کا نام یوکرینی صدر زیلنسکی کے روس کے خلاف جنگ میں مضبوطی سے ڈٹے رہنے کے پر ’زیلینسکی‘ رکھ دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ روس نے 24 فروری کو یوکرین کے بڑے شہروں بشمول دارالحکومت کیف پر کثیر الجہتی حملوں کا آغاز کیا تھا۔

یوکرینی صدر کے روس کے خلاف جنگ میں ڈٹے رہنے پر یہ نام دیا گیا۔ فوٹو اے پی

روس کی جانب سے یوکرین کے عام شہریوں پر فضائی حملے تیز ہونے کے بعد چار ہفتوں کے دوران 36 لاکھ سے زائد افراد یوکرین چھوڑ کر پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔
روسی حملہ آوروں نے زیلنسکی کو  ٹارگٹ نمبر ون کے طور پر رکھا  ہوا ہے جو کہ یوکرین کے دفاع کی قیادت کر رہے ہیں۔
یوکرینی صدر زیلنسکی نے گزشتہ ماہ دارالحکومت سے دور کسی محفوظ مقام پر  پناہ لینے کی امریکی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ لڑائی یہاں ہے اور مجھے گولہ بارود چاہئے نہ کہ کسی قسم کی  سواری۔
یہی الفاظ  ہیں جنہوں نے روسی حملے کے بعد یوکرینی صدر کی بین الاقوامی شہرت کو دوام بخشا ہے۔

 روس کو اعتراض نہیں تو یہ برانڈ وہاں فروخت کرنے کو تیار ہیں۔ فوٹو ٹوئٹر

یوکرینی صدر  کے مستحکم عزم سے متاثر ہونے والوں میں سے ایک رنجیت باروہ ہیں جو انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام  کے معروف بزنس مین ہیں۔
آسام کا علاقہ دنیا بھر میں چائے کاشت کرنے والا بڑا خطہ ہے جہاں پر ان کی چائے کی مشہور کمپنی نے ’زیلنسکی‘ کے نام سے اپنے نئے برانڈ کو متعارف کرایا ہے۔
معروف بزنس مین کا کہنا ہے کہ  جس طرح سے زیلنسکی نے امریکی پیشکش مسترد کی اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ جب انہوں نے کہا کہ'  میں مفت سواری نہیں چاہتا، گولہ بارود کی ضرورت ہے' یہ الفاظ ان کے کردار کو نمایاں کرتے ہیں۔
روس کی طاقتور فوج کا سامنا کرنا ان کے مضبوط عزم کو ظاہرکرتا ہے اور وہ اپنا ملک چھوڑ کر نہیں گئے۔ ’اسی عزم کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے اپنے برانڈ کو ان سے منسوب کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ زیلنسکی کے کردار کی مضبوطی اور طاقت جیسا اثر ہماری چائے کے اس  برانڈ میں بھی ہے۔
انڈیا کی ریاست آسام  میں ایک لاکھ سے زیادہ چائے کے باغات ہیں جہاں سے  سالانہ  چھ لاکھ 30 ہزار  ٹن چائے کی پتی  تیار ہوتی ہے۔

چار ہفتوں میں 3.6 ملین افراد پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ فوٹو اے پی

روس انڈین چائے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ  ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر روس کو ہماری چائے کے نام سے کوئی مسئلہ نہیں تو ہم یہ برانڈ  روس کو فروخت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں کے لوگ ہماری اس مضبوط چائے سے لطف اندوز ہوں۔
رنجیت کا کہنا ہے کہ وہ صدیوں پرانے اس تصور پر یقین رکھتے ہیں کہ چائے کا وقفہ امن کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔
’کوئی بھی جنگ نہیں چاہتا۔ بہت سی جنگیں ایک چائے کے کپ پر بات چیت میں ختم ہو چکی ہیں۔ ہمارا کہنا ہے کہ جنگ نہیں، صلح کرو اور ایک کپ چائے پیو۔‘
 

شیئر: