Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پارلیمنٹ نے منحرف رکن کی نااہلی کا تعین کیوں نہیں کیا: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت قانون ساز نہیں، صرف آئین کی تشریح کر سکتی ہے۔‘ (فوٹو روئٹرز)
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے سے متعلق ریفرنس کی سماعت میں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ ’ہم جاننا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ نے منحرف رکن کی نااہلی کا تعین کیوں نہیں کیا۔‘
منگل کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت قانون ساز نہیں، صرف آئین کی تشریح کر سکتی ہے اور آرٹیکل 63 میں رکنیت ختم ہونے کا ذکر ہے نا اہلی کا نہیں ہے۔‘
چیف جسٹس  نے کہا کہ ’رکنیت ختم ہونا آئین کی زبان کی قریب ترین تشریح ہوگی۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں رکنیت ختم ہونے کی مدت کا بھی ذکر نہیں۔‘
جس پر جسٹس جمال خان نے کہا کہ ’آپ تین دن سے سخت قانون بنوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سزا موت سے زیادہ سخت سزا نہیں ہوتی۔ لیکن پھر بھی لوگ قتل کرتے ہیں۔ لوگ انحراف کیوں کرتے ہیں کون سی طاقتیں انحراف کرواتی ہیں۔؟‘
اٹارنی جنرل  نے کہا کہ ’انحراف کون اور کیوں کرواتا ہے یہ عدالتی فورم کے سوال نہیں۔ جس کا ضمیر جاگے وہ میریٹ میں پیسے نہیں گن رہا ہوتا۔ منحرف اراکین اور انحراف کرانے والے کبھی سخت قانون نہیں بننے دیں گے۔‘
اٹارنی جنرل  نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر اسمبلی ٹوٹ جائے تو کوئی ممبر اپنی رکنیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا، منحرف اراکین کے لیے آئین کہتا ہے کہ وہ ممبرنہیں رہے گا اور سیٹ خالی تصور ہوگی، سیٹ خالی تصور ہونے کا مطلب ہے کہ دوبارہ الیکشن ہوگا۔‘
اٹارنی جنرل کے دلائل پر جسٹس منیب اختر نے سوال  کیا کہ ’ایک ممبر کو ڈی سیٹ ہونے کے بعد کس بنیاد پر نااہل ہونا چاہیے، پارلیمنٹ نااہلی کی مدت 2 یا 5 سال تک مقرر کرسکتی ہے، کیا ایک شخص کو تاحیات نااہل کرنے کےلیے انحراف کی بنیاد کافی ہے؟‘
جسٹس  اعجاز نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ 62 اے میں ترمیم کرکے نااہلی کی مدت کیوں مقرر نہیں کررہی؟
سپریم کورٹ نے مزید سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

شیئر: