Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس کو اکٹھا کر کے نہیں سنا جا سکتا‘

اپنے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک بار پھر رجسٹرار سپریم کورٹ کی تعیناتی کا معاملہ اٹھایا ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کی سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس یکجا کرنے کے معاملے پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔
بدھ کو لکھے گئے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے جسٹس چیف پاکستان سے کہا ہے کہ ’سپریم کورٹ بار کی سنیچر کو درخواست کی سماعت میں صدارتی ریفرنس سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا گیا۔ حیران ہوں کہ جو ریفرنس دائر ہی نہیں ہوا تھا اسے مقرر کرنے کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس کو اکٹھا کر کے نہیں سنا جا سکتا۔‘
خط میں کہا گیا ہے کہ ’بار کی درخواست آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر ہوئی اس پر عدالت حکم دے سکتی ہے۔ درخواست کے ساتھ ریفرنس کو یکجا کر کے کیسے سنا جا سکتا ہے؟ درخواست 184/3 کے اختیار سماعت میں سنی جا رہی ہے جس کے تحت عدالت حکم دے سکتی ہے یا فیصلہ سنا سکتی ہے جبکہ ریفرنس مشاورتی اختیار سماعت ہے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ ’آئینی درخواست اور صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے بینچ بنایا گیا ہے۔ بار کی درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ میں چوتھے، آٹھویں اور 13 ویں نمبر کے فاضل ججز کو شامل کیا گیا۔ ایسا کر کے آپ نے اپنے سابق چیف جسٹس کی روایت سے پہلو تہی کیا۔ اہم آئینی معاملات کی سماعت کے لیے سابق چیف جسٹس نے چیف جسٹس کے بینچ تشکیل دینے کا صوابدیدی اختیار طے کیا تھا۔ سابق چیف جسٹس نے طے کیا تھا کہ سینیئر ججز پر مشتمل بینچ سماعت کرے گا۔‘
انہوں نے چیف جسٹس کو اپنے خط میں لکھا کہ ’یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر پوری قوم سپریم کورٹ کی جانب دیکھ رہی ہے۔ جج کا حلف کہتا ہے وہ اپنے فرائض منصبی میں ذاتی مفاد کو ملحوظ نہیں رکھے گا۔ کہاوت ہے کہ انصاف نہ صرف ہو بلکہ ہوتا نظر بھی آئے۔ کہاوت کا ذکر ججز کے ضابطہ اخلاق میں پانچویں نمبر میں بھی درج ہے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’سپریم کورٹ رولز کے مطابق بینچ کی تشکیل کا اختیار شفاف مبنی برانصاف اور قانون کے مطابق استعمال کرنا ہے۔‘

گذشتہ روز جسٹس عمر عطا بندیال نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر ریفرنس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ (فائل فوٹو: سپریم کورٹ)

اپنے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک بار پھر رجسٹرار سپریم کورٹ کی تعیناتی کا معاملہ اٹھاتے ہوئے لکھا ہے کہ ’جناب چیف جسٹس کئی مرتبہ آپ کو تحریری طور پر مطلع کر چکا ہوں کہ ایک بیوروکریٹ کو وزیراعظم ہاؤس سے درآمد کر کے رجسٹرار تعینات کیا گیا۔ عام تاثر ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا مقدمہ کس بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر ہو۔ میری رائے میں رجسٹرار کی تقرری عدلیہ کے انتظامیہ سے الگ ہونے کے آئینی اصول کی خلاف ورزی ہے۔‘
سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج نے خط میں مزید لکھا کہ ’یہ خط لکھتے ہوئے میں نے دو مرتبہ سوچا تاہم آئین کے آرٹیکل 175/3 اور 180 میں آئین سینیئر ترین جج کا ذکر کرتا ہے۔ سنیارٹی ذمہ داری بھی عائد کرتی ہے۔ سینیئر ججز سپریم کورٹ کا بطور ادارہ تسلسل ہوتے ہیں۔ جہاں تک مجھے علم ہے آپ کے تمام سابق چیف جسٹس سینیئر ترین جج سے مشاورت کرتے تھے۔ چیف جسٹس صاحب آپ نے اس روایت کو بھی ختم کر دیا جس کے ادارے پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ روز چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر ریفرنس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا جس میں سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شامل نہیں ہیں۔

شیئر: