Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ق لیگ میں اختلافات، کیا چوہدری پرویز الہی واقعی چھکا لگا چکے ہیں؟

سلمان غنی کے مطابق ’چوہدری پرویز الٰہی نے بھرپور طریقے سے سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کی سیاست اس وقت ہر لمحہ بدل رہی ہے۔ پاکستانی میں چونکہ آج کل سیاست کو کرکٹ سے تشبیہ دینا معمول ہے تو گجرات کے چوہدریوں کی جانب سے سے اچانک پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیشکش قبول کرنے کو چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے سے ایک چھکے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
لیکن دلچسپ صورتحال یہ پیدا ہوئی ہے کہ چوہدری پرویز الہی یہ چھکا تو لگا چکے ہیں لیکن ان کی اپنی ٹیم کے کچھ لوگ ان کے ساتھ دکھائی نہیں دے رہے۔
جب پرویز الہی حکومت کے ساتھ ڈیل کرنے میں مصروف تھے تو پارٹی کے جنرل سیکریٹری طارق بشیر چیمہ نے نہ صرف اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا بلکہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ان کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان بھی کیا۔
مقامی ٹی وی چینلز پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں سنا جا سکتا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’وہ اپنی قیادت کے حکومت کی حمایت کے اس فیصلے کو نہیں مانتے۔‘
جبکہ وفاقی وزیر مونس الٰہی کے بیانات بھی سامنے آئے ہیں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’وہ طارق بشیر چیمہ کو راضی کر لیں گے۔‘
طارق بشیر چیمہ کا نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہنا تھا کہ انہوں نے تین مہینے پہلے چودھری صاحبان کو بتایا تھا کہ وہ عمران خان کو اعتماد کا ووٹ نہیں دیں گے۔
طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ انہوں نے چودھری شجاعت سے اجازت لے کر استعفیٰ دے دیا۔ پرویز الہی کے حوالے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آج حکومتی وفد کے ساتھ ملاقات میں وہ ان کے ساتھ موجود تھے جس کے دوران ان کی وفد کے ارکان سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔   
طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان چھوڑ جائیں گے لیکن عدم اعتماد میں عمران خان کو سپورٹ نہیں کریں گے۔
پاکستانی سیاست میں آنے والی اس ڈرامائی تبدیلی پر بات چیت کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا کہ ’پاکستانی سیاست میں ویسے آپ کو ہر طرح کی ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن موجودہ صورتحال انتہائی دلچسپ ہے۔‘
’میری معلومات کے مطابق کل رات ق لیگ اور اپوزیشن کا ہر طریقے سے ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر اتفاق ہو چکا تھا اور چیزیں بھی فائنل کر لی گئی تھی۔ آج صبح صوبائی اسمبلی میں جو عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد آئی وہ بھی چودھری پرویز الہی سے مشاورت سے آئی۔‘
’مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے بزدار کے خلاف قرارداد کو اپنے حق میں استعمال کروایا ہے یہی وجہ ہے کہ باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) والے چوہدری پرویز الہی سے ناراض ہو کر اپوزیشن میں شامل ہوئے۔‘

طارق بشیر چیمہ 90 کی دہائی سے سیاست میں ہیں۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ ’جب پرویز الہٰی وزیراعظم سے مل رہے تھے اسی وقت انہوں نے باپ کے ساتھ بھی ملاقات طے کر رکھی تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی نے بھرپور طریقے سے سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔‘
سلمان غنی کا کہنا تھا ’جہاں تک طارق بشیر چیمہ اور ق لیگ کے اندر چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری سالک کے حوالے سے جو خبریں چل رہی ہیں اس حد تک تو درست ہے کہ چودھری پرویز الہٰی نے مکمل مشاورت کے بغیر فیصلہ کر لیا ہے اس سے پارٹی کے اندر اور خاندان میں اعتراض بھی ہو سکتا ہے لیکن میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ یہ معمولی مسئلہ ہے اس کو جلد یا بدیر حل کر لیا جائے گا۔‘
طارق بشیر چیمہ کی طرف سے کھل کر عمران خان کی مخالفت کرنے کے حوالے سے سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ’طارق بشیر چیمہ بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست میں آئے تھے۔ انہوں نے 2004 میں ق لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ بہاولپور میں ان کا اثر و رسوخ ہے اور یوں لگ رہا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اپوزیشن کی سیاست کرنے کے حق میں تھے۔‘
خیال رہے کہ طارق بشیر چیمہ 90 کی دہائی سے سیاست میں ہیں تاہم ان کی زیادہ تر سیاست پیپلزپارٹی کے ساتھ رہیں البتہ پرویز مشرف دور میں وہ مسلم لیگ قائداعظم میں شامل ہوگئے تھے۔
جب مشاہد حسین نے ق لیگ کو خیرباد کہا تو اس کے بعد اُن کو مسلم لیگ ق کا جنرل سیکریٹری بنا دیا گیا۔ وہ ابھی تک ق لیگ کے جنرل سیکریٹری ہیں۔
موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے شعبہ سیاسیات کے استاد رسول بخش رئیس کہتے ہیں ’اس وقت جو سیاست چل رہی ہے مجموعی طور پر اس کو اخلاقیات سے عاری اور مفادات کی سیاست کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ اس وقت کوئی بھی ایک پارٹی ایسی نہیں ہے جو کسی اصول یا نظریے پر کھڑی نظر آئے، چاہے وہ اپوزیشن کی کوئی جماعت ہو یا حکمران جماعت اور اس کے اتحادی ہوں سب ایک ہی طرح کا کھیل کھیل رہے ہیں۔‘
’اس لیے اس وقت یہ کہنا کہ کون آگے جا رہا ہے اور کون پیچھے مکمل طور پر قبل از وقت ہے۔ یہاں تو دن اور رات کے بجائے گھنٹوں اور منٹوں میں صورت حال بدل رہی ہے۔ اس وقت کی صورتحال بھی مجھے کسی طور حتمی نہیں لگتی۔ ظاہر ہے پرویزالٰہی کے حکومت کا ساتھ دینے کے اعلان سے حکومت کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے لیکن اب اپوزیشن بھی کوئی ایسی چال چلے گی جس سے ان کا پلڑا بھاری ہو سکتا ہے۔‘

شیئر: