Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن کی پریس کانفرنس: پی ٹی وی مائیک اور شہباز شریف مرکز نگاہ

گھر کے لان میں منعقدہ کانفرنس اپوزیشن کے بجائے حکومتی پریس کانفرنس کا منظر پیش کر رہی تھی (فوٹو: بلاول بھٹو ٹوئٹر)
اسلام آباد میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی اپوزیشن میں شمولیت کا فیصلہ موجودہ سیاسی حالات میں ایک بہت بڑا ایونٹ بن گیا جس میں سرکاری ٹی وی (پی ٹی وی) کا مائیک حالات کے بدلنے کی گواہی دے رہا تھا۔
 بدھ کو مارگلہ روڈ پر واقع ایم کیو ایم سے منسلک ایک کاروباری شخصیت کے وسیع و عریض گھر کے لان میں منعقدہ نیوز کانفرنس اپوزیشن کے بجائے حکومتی پریس کانفرنس کا منظر پیش کررہی تھی۔
باہر سڑک پر پاکستان کے ہر نجی ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی وینز اس بات کا پتا دے رہی تھیں کہ ایک بار پھر اسلام آباد کی مارگلہ روڈ کسی اہم تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
اس سے قبل جب پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ ن میں سے مسلم لیگ ق بنائی گئی تھی تو بھی مارگلہ روڈ پر ہی واقع ایک گھر سرگرمیوں کا مرکز تھا، پھر ق لیگ نے مارگلہ روڈ پر واقع مسلم لیگ سیکریٹریٹ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا تھا۔
نیوز کانفرنس کے لیے 100 کے قریب کرسیاں لگائی گئی تھیں جبکہ لان میں مہمانوں کی تواضع کے لیے چکن تکے، فرائیڈ فش اور چائے موجود تھی۔
نیوز کانفرنس تو چار بجے کے بجائے کچھ تاخیر سے شروع ہوئی مگر ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی، عامر خان اور امین الاحق پہلے ہی پہنچ گئے تھے تاہم اپوزیشن کے رہنماؤں کی آمد ساڑھے چار بجے کے قریب ہوئی۔
اس سے قبل اپوزیشن کے کچھ رہنما لان میں پہنچ گئے جن میں مریم اورنگزیب، شیری رحمان، ایاز صادق، مفتاح اسماعیل اور مصطفی نواز کھوکھر شامل تھے۔

نیوز کانفرنس کچھ تاخیر سے شروع ہوئی مگر ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی اور دیگر وہاں پہلے پہنچ گئے (فوٹو: بلاول بھٹو ٹوئٹر)

جب وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی ندیم افضل چن وہاں پہنچے تو سب صحافیوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ لگتا ہے ’گل ودھ گئی اے۔‘
مریم اورنگزیب نے سب کو یاد دلایا کہ ندیم افضل چن نے سب سے پہلے حکومت چھوڑ کر اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر حکومتی زوال کا آغاز کیا تھا۔
ان کی اس بات پر ندیم افضل چن نے برجستہ کہا کہ ’آپ کی دفعہ بھی میں ہی پہلا ہوں گا‘ جس پر زوردار قہقمہ بلند ہوا۔
پریس کانفرنس تقریباً پونے پانچ بجے شروع ہوئی تو ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے میزبانی سنبھال کر سب کو خوش آمدید کہا۔
انہوں نے جلسے کی طرح القابات کے ساتھ باری باری شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو اور دیگر کو خطاب کی دعوت دی۔
وہاں موجود پی ٹی وی کا مائیک سب کی توجہ کا مرکز تھا۔ صحافیوں نے اس کو خاص طور پر نوٹ کرکے کہا کہ ’شاید پی ٹی وی کو بھی پتا چل گیا ہے کہ حکومت اِدھر موجود ہے۔‘
اس موقع پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے بھی کہا کہ ’شہباز شریف چند دن میں ہمارے وزیراعظم ہوں گے۔‘

شہباز شریف نوٹس لے کر آئے تھے اور نیوز کانفرنس کے دوران وہ ان (نوٹس) کی طرف دیکھ کر بولتے تھے (فوٹو: اردو نیوز)

جب انہوں نے بلوچستان سے بی این پی کے سربراہ اختر مینگل مینگل کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ان کی وجہ سے لاپتا افراد کے لیے آواز اٹھانے کی ترغیب ملی تو وہاں موجود بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی نے فوراً لقمہ دیا کہ ’ہماری وجہ سے بھی‘ جس پر ایک قہقہ بلند ہوا۔
شہباز شریف نوٹس لے کر آئے تھے اور پریس کانفرنس کے دوران کبھی کبھی وہ ان (نوٹس) کی طرف دیکھ کر بولتے تھے۔
ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان نے اچانک اعلان کیا کہ اپوزیشن رہنما اور ایم کیو ایم  نیوز کانفرنس کے دوران ہی معاہدوں پر دستخط کریں گے تو وہاں موجود ایک صحافی نے کہا کہ ’ایم کیو ایم کو داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے اپوزیشن کو مجبور کیا کہ سب کے سامنے معاہدوں پر دستخط کرے تاکہ وہ میڈیا ریکارڈ کا حصہ بن جائیں اور مستقبل میں ان سے ہٹنا اپوزیشن رہنماؤں کے لیے ممکن نہ رہے۔‘
نیوز کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ گذشتہ رات اور آج شام کی مصروفیات کے باعث ان کی گزارش ہے کہ آج میڈیا سوال نہ کرے کیونکہ ویسے بھی چیزیں ابھی طے ہو رہی ہیں تو سوالات سے کہیں اختلاف نہ پھیل جائے۔ اس پر بلاول فوراً بولے کہ ’اب ہم میں اختلاف نہیں ہوگا، ہم صحافت کی آزادی کے قائل ہیں اس لیے چند سوال لے لیتے ہیں۔‘

سوالات سے بچنے کے لیے فروغ نسیم جلدی سے جان چھڑا کر نیوز کانفرنس سے نکل گئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 ایم کیو ایم کے بدھ کو مستعفی ہونے والے وفاقی وزرا امین الحق اور فروغ نسیم بھی پچھلی نشستوں پر موجود تھے۔ نیوز کانفرنس ختم ہونے کے بعد صحافیوں نے گذشتہ ساڑھے تین برسوں میں کم ہی دستیاب رہنے والے سابق وزیر قانون فروغ نسیم کو گھیر لیا اور ان سے پوچھا کہ کیا وزیراعظم نے انہیں بھی غیر ملکی خط پر اعتماد میں لیا؟
فروغ نسیم کا جواب تھا کہ ’وہ خط انہوں نے نہیں دیکھا اس لیے اس پر تبصرہ نہیں کرسکتے۔‘ اس کے بعد مزید سوالات سے بچنے کے لیے وہ جلدی سے جان چھڑا کر نکل گئے۔

شیئر: