Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کے کل اور آج کا فرق، عمار مسعود کا کالم

لوگ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح تحریک انصاف کی شاخ سے جھڑ رہے ہیں اور کوئی روکنے ولا نہیں ہے (فوٹو: اردو نیوز)
موجودہ سیاسی صورت حال میں سارا فرق نیوٹرل اور نان نیوٹرل کا ہے۔ سب کچھ وہی ہے جو پہلے تھا۔ اس فرق سے ہمارے سیاسی نظام میں جو فرق پیدا ہوا وہ بے پناہ ہے۔ اس کو مثالوں سے واضح کرتے ہیں۔ 
ماضی میں عمران خان نے 35 پنکچر کا فساد کھڑا کیا اور پورے ملک کو اس بات کا یقین دلوایا گیا کہ یہ ہی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اب خان صاحب کو خط لکھ کر دھمکی اس دور کا سب سے بڑا مذاق بن چکی ہے۔ 
ماضی میں باوجود کوشش کے میڈیا عمران خان کی حکومت کی کجیوں اور خامیوں کو پوری طرح رپورٹ نہیں کرسکا۔ اب وہ جنہوں نے ہمیشہ تحریک انصاف کو معتبر دکھانے کے لیے سچ کی قربانی دی وہی لٹھ لے کر حکومت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ 
ماضی میں سینیٹ کے چیئرمین کے الیکشن میں باوجود اکثریت ہونے کے اپوزیشن کو منہ کی کھانا پڑی اور اب تحریک انصاف کی اکثریت دن دہاڑے اس مصنوعی جماعت کو چھوڑ گئی ہے۔ 
ماضی میں الیکشن کمیشن کے باہر اکبر ایس بابر فارن فنڈنگ کے فراڈ کی فائلیں لے کر دربدر ہوتے رہے اور اب الیکشن کمیشن سے کسی بھی لمحے اس کا فیصلہ تحریک انصاف کا مستقبل تاریک کرسکتا ہے۔ 
ماضی میں مہنگائی کی جانب عوام کی توجہ نہیں دلائی جاتی تھی لیکن آج سارا ملک مہنگائی پر احتجاج کرتا نظر آتا ہے۔ 
پہلے کسی بھی الیکشن سے پہلے کال آجاتی تھی۔ ایک گھنٹے میں نتائج بدل جاتے تھے اب اتحادیوں کی آنکھیں انتظار میں پتھر ہو گئیں مگر کال ہے کہ آہی نہیں رہی۔ 
پہلے مسلم لیگ ق کے چوہدری پانچ سیٹوں کے باوجود سارے ملک کی سیاست کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہوئے تھے اب گجرات کے چوہدری عبرت کا نشان بننے جارہے ہیں اور ان کی تعداد پانچ سیٹوں سے بھی کم ہونے والی ہے۔ 

گجرات کے چوہدری عبرت کا نشان بننے جارہے ہیں اور ان کی تعداد پانچ سیٹوں سے بھی کم ہونے والی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پہلے عمران خان وہ لیڈر تھا جو امریکہ سے آنکھ ملا کر بات کرسکتا تھا۔ ٹرمپ تک سے دیر تک بات کرسکتا تھا۔ اب شاید ایسا نہیں ہے۔ 
پہلے میڈیا پر نواز شریف کا نام لینے سے طوفان آجاتا تھا، آصف زرداری کو چور ڈاکو کہا جاتا تھا، مولانا فضل الرحمان کو بدترین ناموں سے پکارا جاتا تھا اب ان ہی کی پریس کانفرنس لائیو دکھائی جا رہی ہیں، تقاریر بغیر ’بیپ‘ کے نشر کی جارہی ہیں۔ ان کو گیم چینجر بتایا جارہا ہے۔
 پہلے لوگوں کو جہاز میں بٹھا بٹھا کر تحریک انصاف میں شامل کیا جا رہا تھا اس کو تاریخی کامیابی بتایا جا رہا تھا، اب لوگ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح تحریک انصاف کی شاخ سے جھڑ رہے ہیں اور کوئی روکنے ولا نہیں ہے۔ 
پہلے اسمبلی کے پہلے دن ہی شہباز شریف کے میثاقِ جمہوریت کا مذاق اڑایا جا رہا تھا، خان صاحب کو کرپٹ لوگوں کے ساتھ کلام نہ کرنے کا پیغام دیا جا رہا تھا اب سب جماعتوں کو مل کر ملک کی معیشت کے لیے کام کرنے کا پیغام دیا جا رہا ہے۔ ان ہی لوگوں کو جن کا مذاق اُڑتا تھا ان ہی کو معیشت کی بحالی کا ٹاسک دیا جارہا ہے۔

فارن فنڈنگ سے بی آر ٹی تک کے فیصلوں کی تلوار عمران خان کے سر پر لٹک رہی ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)

کل صدر پاکستان کے ہر آرڈیننس کو من و عن تسلیم کیا جا رہا تھا۔ نہ کوئی اعتراض کرتا نہ کوئی احتجاج ہوتا۔ اب  صدر پاکستان کے آرڈیننس پر بحث ہو رہی ہے۔ 
کل کسی کی جرأت نہیں تھی کہ عثمان بزدار کی شان میں کچھ کہے اب عثمان بزادر کو کھڑے کھڑے نکال دیا گیا ہے۔ 
کل عمران خان آنکھ کا تارا تھا۔ کرپشن کے خلاف جہاد کا استعارہ تھا، نئے پاکستان کا بانی تھا آج عمران خان کی کرپشن کے کئی کیسز سامنے آرہے ہیں۔ فارن فنڈنگ سے بی آر ٹی تک کے فیصلوں کی تلوار عمران خان کے سر پر لٹک رہی ہے۔
سیاست دانوں کی جدوجہد اپنی جگہ، صحافیوں کی جرأت، وکلا اور سول سوسائٹی کی دلیری اپنی جگہ لیکن موجودہ سیاسی منظرنامے میں اصل فرق کل اور آج کا ہے۔ 

شیئر: