Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہارن نہ بجائیں، آگے نیب سو رہا ہے!

ایک وقت تھا جب نیب مریم نواز کا پیچھا کر رہا تھا اور اب انصاف کی خاطر مریم نواز نیب کا تعاقب کر رہی ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)
پوچھنا تو بنتا ہے کہ ’نیب رے نیب، تیری کون سی کل سیدھی‘ یہی ’نیب‘ تھا اور اس کی پھرتیاں دیکھنے والی تھیں۔ ذرا کسی نے اپوزیشن کے سیاست دان کے خلاف نام نہاد ثبوتوں کا  کوئی پلندہ لہرایا تو نیب چل پڑی گرفتاریاں کرنے، چھاپے مارنے۔
اپوزیشن کا کون سا سیاست دان اس کے عتاب سے بچا۔ ہیومن رائٹس وغیرہ کی بات تو جانے دیں، اسی ادارے پر تو الزام لگ رہا ہے کہ اس نےبھیڑ بکریوں کی طرح سیاست دانوں کو جیلوں میں گھسیڑا۔ ان کو بلاجواز قید میں رکھا۔ پھانسی کے مجرمان کے سیل میں ڈالا۔ قید تنہائی میں رکھا۔ اور جب یہی کیس عدالتوں میں پیش ہوئے ثبوت کے نام پر در انصاف کے پاس کاسہ ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
نواز شریف ہوں، مریم نواز ہوں، شاہد خاقان عباسی ہوں، احسن اقبال ہوں، سعد رفیق ہوں، سلمان رفیق ہوں، خواجہ آصف ہوں، خورشید شاہ ہوں سب اس عذاب کو بھگت چکے ہیں۔  
انسانی حقوق کی پامالی اس قدر سرعام اور تسلسل سے ہوئی ہے کہ بہت سوں نے اس کارروائی کو سچ سمجھ کر قبول کر لیا۔ لوگ یہی سمجھے کہ چور لٹیرے پکڑے گئے۔ ملک کے خزانے پر ڈاکہ ڈالنے والے کیفرکردار تک پہنچے۔ یہ عقدہ تو بہت بعد میں کھلا کہ یہ کارروائیاں تو صرف الزامات کی بنا پر کی گئی ہیں۔ وہ الزامات جن کو ’زر خرید ترجمانوں‘ نے بڑی محنت سے تراشا تھا۔
یہ وہی لوگ ہیں کہ جن کی نوکریوں کا انتظام کروانے کے لیے بڑے بڑے افسران در بدر پھرتے تھے۔   
ایک جانب تو نیب ہمیں انصاف کی تلاش میں چھلانگیں مارتا نظر آتا ہے، دوسری جانب جب حکومت کے کسی سکینڈل کی بات آتی ہے تو یوں لگتا ہے  نیب چپ چاپ اور گم سم منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھا ہے۔ کتنے سکینڈل آئے کتنے گذر گئے۔ چینی کی قیمت کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ غریب کے لیے دوائیں نہیں۔ آٹا کتنے روپے کا کلو ہو گیا۔ ان قومی بحرانوں میں کس نے کیا کمایا۔ قوم کو کتنے کا ’ٹیکہ‘ لگایا۔ کس کی تجوری کتنی بھری۔ اس پر نیب بالکل خاموش ہے۔  

خان صاحب کو مسند اقدار پر بیٹھے اندازہ نہیں کہ ایک نہ ایک دن تو بازی پلٹے گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لوگ اب بھی نیب سے اسی پھرتی کا تقاضا کرتے ہیں مگر حکومت کے معاملے میں نیب کا دل نرم ہو ہی جاتا ہے۔
ایک دفعہ چیئرمین نیب نے حکومت کے کیسز کے طرف توجہ دلانے کی کوشش کی اور کہا اگر اس حکومت کی فائلیں کھول دی جائیں تو یہ حکومت دو دن میں گر جائے۔ دو دن بہت ہوتے ہیں۔ انہی دو دنوں میں چیئرمین نیب کی ایک وڈیو آگئی۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ مذکورہ وڈیو کے نشانات مٹاتے مٹاتے وہ انصاف کے ہر اصول کو مٹا گئے۔
عمران خان اب بھی ان سے خفا سے ہیں، خان صاحب کی ناراضی کی وجہ یہ نہیں کہ چیئرمین نیب نے غیرقانونی طور پر گرفتاریاں کیوں کیں؟ انہیں تو اس بات کا غصہ ہے کہ صرف گرفتاریاں کیوں کیں؟ کوڑے کیوں نہیں مارے؟ برف کی سِلوں پر الٹا کیوں نہیں لٹایا؟ ثبوت وغیرہ کی بحث میں خان صاحب کبھی پڑے نہیں، انہیں ان خرافات سے کوئی مطلب نہیں۔ ان کا نظریہ بس اتنا ہے ان کے سوا سب چور ہیں، مافیا ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اگر کوئی ان کی توجہ فارن فنڈنگ کیس یا ان سے وابستہ دیگر معاملات کی طرف دلوائے تو خان صاحب بچوں کی طرح روٹھ جاتے ہیں۔  
خان صاحب اس میدان سیاست میں نئے ہیں۔ مسند اقدار پر بیٹھے انہیں اندازہ نہیں کہ ایک نہ ایک دن تو بازی پلٹے گی۔ پھر یہی نیب ہوگی اور خان صاحب کی ساری جماعت کٹہرے میں کھڑی ہوگی۔ بقول رانا ثنا اللہ ہم خان صاحب کو قید میں ہر سہولت مہیا کریں، پھر دیکھتے ہیں کہ خان صاحب کتنے دن کی جیل کاٹتے ہیں۔ کتنی دیر مشتقی کے ساتھ چکی پیستے ہیں اور کتنی دیر مشق سخن جاری رہتی ہے۔ 
اب مریم نواز کے ایون فیلڈ ریفرنس کی بابت بھی سن لیں۔

لوگ اب بھی نیب سے اسی پھرتی کا تقاضا کرتے ہیں مگر حکومت کے معاملے میں نیب کا دل نرم ہو ہی جاتا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

اس کیس میں سزائیں الیکشن سے 19 دن پہلے سنائی گئیں۔ اس سے متعلق مخفی باتیں اب اتنی سرعام ہو گئی ہیں کہ اب گلی گلی ان کا ڈھول بج رہا ہے۔ تمام تر شواہد موجود ہیں مگر ابھی تک فیصلہ نہیں ہو رہا۔  
ایک وقت تھا جب نیب مریم نواز کا پیچھا کر رہا تھا اور اب یہ مقام  ہے کہ انصاف کی خاطر مریم نواز نیب کا تعاقب کر رہی ہیں۔ اب نیب ان مقدمات سے جان بچا رہا ہے۔ اب کبھی نیب کو کورونا ہو جاتا ہے، کبھی ثبوت کی مزید تلاش کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور کبھی اصل مقدمے سے صرف نظر کر کے توہین عدالت کے  الزام کا ڈول ڈال دیا جاتا ہے۔
ایون فیلڈ ریفرنس بھی ایک ایسا معاملہ جس کی نظیر تاریخ میں شاید ہی ملے۔ جس پر الزام ہے وہ تو ہر پیشی پر الزامات کا سامنا کرنے پہنچ جاتی ہے۔ میڈیا سے خطاب بھی کرتی ہے۔  دوہرے معیار پر بڑوں بڑوں کو شرمسار بھی کرتی ہے اور جو الزام لگانے والا ہے وہ ہر پیشی پر دبک جاتا ہے۔  
اگرچہ عوامی سطح پر اب سب کو ان ریفرینسز کی حقیقت معلوم ہو چکی ہے مگر مریم نواز اب بھی انصاف کی متلاشی ہیں۔  اگلی چند پیشیاں بہت اہم ہوں گی۔ یا تو انصاف ہو جائے یا پھر ہمیں کہنا پڑے گا کہ ہارن نہ بجائیں ۔ آگے نیب سو رہا ہے۔ 

شیئر:

متعلقہ خبریں