Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دی ٹیچنگ ٹری‘ سعودی عرب میں بڑی تبدیلی کی علامت

مہند شونو کا فن پارہ تخلیق نو اور دوبارہ جنم کی علامت ہے (فوٹو: سپلائیڈ)
40 میٹر طویل کھجور کے پینٹ کیے گئے سیاہ رنگ کے پتوں سے بنی ایک تنصیب سعودی پویلین میں مرکز نگاہ بنی ہوئی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ’دی ٹیچنگ ٹری‘ کے عنوان سے تخلیق کردہ یہ فن پارہ رواں سال وینس میں مملکت کی نمائندگی کے لیے منتخب کیے گئے فنکار مہند شونو کے بقول ’ایک زندہ تخیل کا مجسم، تخلیقی ذہن کی مزاحمت ہے۔‘
ان کے بقول ’یہ ایک سفر پر مبنی ہے، نہ صرف میرے بلکہ اُس لچکدار اور نہ رکنے والے تخلیقی منظر کے سفر پر جو اب سعودی عرب میں ابھر رہا ہے۔‘
چونکہ یہ ملک بین الاقوامی آرٹ کے منظر نامے پر نمایاں ہوتا جا رہا ہے، شونو سعودی عرب کے فنکاروں کی نئی نسل کے مضبوط نمائندہ بن گئے ہیں۔
ابوظہبی میں کلچرل فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر ریم فدا اور اسسٹنٹ کیوریٹر روٹانا شیکر کی معاونت سے تیار کردہ شونو کا منفرد فن پارہ قدرتی دنیا اور انسانی تخیل میں لچک، تخلیق نو، فطرت، تخلیق، اور افسانوی تصورات کو کھوجتا ہے۔
لیجنڈری اسلامی شخصیت الخضر جنہیں قرآن میں خدا کے ایک نیک بندے کے طور پر بیان کیا گیا ہے جنہیں لافانی زندگی سے نوازا گیا اور جن کے پاس حکمت وغیب کا علم تھا، نے شونو کی ذاتی اور تخلیقی زندگی پر گہرا اثر مرتب کیا ہے۔

شونو کا منفرد فن پارہ قدرتی دنیا اور انسانی تخیل میں لچک، تخلیق نو، فطرت، تخلیق، اور افسانوی تصورات کو کھوجتا ہے (فوٹو: سپلائیڈ)

کئی تصورات کے مطابق جہاں کہیں بھی خضر بیٹھتے تھے ایک باغ اُگ جاتا تھا۔ شونو کا یہ فن پارہ بھی تخلیق نو اور دوبارہ جنم کی علامت ہے۔
یہ (فن پارہ) دوبارہ جنم لینے کی امید کے خیال کی بھی عکاسی کرتا ہے خاص طور پر جب ماضی اور مستقبل کے ماحولیاتی اور انسانی جدوجہد کی موجودہ انتباہی علامات کا سامنا ہو۔
ریم فدا نے بتایا کہ ’مہند کے ساتھ فنکاروں اور تخلیق کاروں کی ایک بڑی کمیونٹی تھی۔ فوٹوگرافر، ڈیزائنرز، اور مختلف تخلیق کار اکٹھے ہوئے اور اس (فن پارے) کی تخلیق اور نمائش میں ان کا ساتھ دیا۔‘
شونو نے عرب نیوز کو بتایا کہ’میں چاہتا تھا کہ میرا فن پارہ باہر کی روشنی سے منسلک ہو۔ میں چاہتا تھا کہ جیسے قدرتی روشنی میں تبدیلی آتی ہے میرے اس کام میں بھی تبدیلی دکھائی دے۔ آخر میں روشنی بہت اہم ہو گئی اور جو سائے بنائے گئے وہ اس لحاظ سے بہت اہم ہو گئے کہ وہ کس طرح ظاہر ہوں گے۔‘
شونو کا کہنا ہے کہ ’یہ تخلیقی مزاحمت کا ایک عمل ہے۔ انسانی تخیل کو محدود کرنے کی کوششوں کے باوجود اور درحقیقت ان پابندیوں کی بدولت مضبوط اظہار کے لیے راہ ہموار ہوئی ہے۔‘

شیئر: