Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نجران میں پہلی صدی ہجری میں تعمیر ہونے والی مسجد کے آثار

الاخدود شہر کا محل وقوع قدیم نجران ہے۔ (فوٹو: ایس پی اے)
سعودی عرب میں عید الفطر کی تعطیلات کے دوران نجران شہر میں تاریخی خندقوں کا علاقہ سیاحوں کا مرکز بننے جا رہا ہے۔ یہاں ایک ہزار قبل مسیح سے لے کر چوتھی صدی عیسوی تک کے آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب جنوبی جزیرہ عرب کا تمدن عروج پر تھا اور یہاں سے بخور کے تاجر گزرتے تھے۔ 
سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق خندقوں کا تاریخی علاقہ پانچ کلومیٹر کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے کے وسط میں ایک قلعے کی عمارت ہے جو چوکور شکل کی ہے۔ اس کے دو بڑے گیٹ ہیں۔ دونوں کے درمیان راہداری ہے۔ راہداری کے دونوں جانب کمرے ہیں۔ یہاں چٹانوں کے نقوش اور متعدد تحریریں قدیم تمدن کی موجودگی کا پتہ دیتی ہیں۔ 

قدیم نجران شہر اور اس کی مارکیٹ تاجروں کی گزرگاہ پر واقع تھے (فوٹو: ایس پی اے)

نجران کے تاریخی علاقے میں کھدائی کا آغاز 20 ویں صدی کے آخر میں ہوا تھا۔ یہاں تقریبا سات بار کھدائی ہوئی۔ ماہرین نے قدیم قبرستان، تاریخی نوادر اور ایسی قبریں دریافت کیں جن کا تعلق قبل مسیح سے ہے۔ بعض قبریں اسلامی دور کی ہیں۔ 
 یہ بات بھی ریکارڈ پر آئی کہ قبریں علاقے کے جنوبی مقام پر ہیں۔ یہاں موجود قلعے میں جانوروں اور انسانوں کی شکلیں بنی ہوئی ہیں۔ دیواروں پر متعدد شخصیات کے نام نقش ہیں۔ یہاں پہلی صدی ہجری میں تعمیر کی جانے والی ایک مسجد بھی دریافت ہوئی ہے۔ حجری آلات بھی ملے ہیں جنہیں قدیم دور کے انسان استعمال کیا کرتے تھے۔ 

اس علاقے میں حجری آلات بھی ملے ہیں۔ (فوٹو: ایس پی اے)

نجران یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ کے معاون پروفیسرعوض بن عبداللہ العسیری نے کہا ہے کہ ایک سے زیادہ مورخ اور سیاح اس بات پر متفق ہیں کہ الاخدود شہر کا محل وقوع قدیم نجران ہے۔ یہ بات کہنے والوں میں الھمدانی اور البکری کے نام قابل ذکر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ قدیم نجران شہر اور اس کی مارکیٹ تاجروں کی گزر گاہ پر واقع تھے۔ یہ شہر چوتھی صدی ہجری میں ختم ہوگیا تھا اور پھر اس کے قریب دوسرا شہر بسایا گیا۔

یورپی سیاحوں نے بھی نجران کے حوالے سے تاریخی حقائق قلمبند کیے ہیں۔ (فوٹو: ایس پی اے)

نجران کا تذکرہ غیرملکی جغرافیہ نویسوں اور تاریخ دانوں نے بھی کیا ہے۔ ان میں اسٹرابون اور وبلینی کے نام قابل ذکر ہیں۔ بطلیموس نے اپنی مشہور جغرافیائی تصنیف میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ جدید دور کے یورپی سیاحوں نے یہاں کی سیاحت کے بعد اس شہر کے تاریخی حقائق قلمبند کیے۔ ان میں جوزف ہیلفی، جون فلیبی اور فلپ لیبنز شامل ہیں۔ 
 
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے اردو نیوز گروپ جوائن کریں

شیئر: