Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سعودی عرب سے تعلقات ’سٹریٹجک‘ شراکت داری میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘

شہباز شریف کا 11 اپریل کو وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ پہلا غیرملکی دورہ ہے۔ (فوٹو: ایس پی اے)
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات کو گہری تزویراتی شراکت داری میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔‘
جمعے کو عرب نیوز کو ایک تحریری انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ ’دونوں ممالک کا خاص رشتہ سات دہائیوں سے ہے۔ اب ہماری دلی خواہش ہے کہ اس رشتے کو ایک گہرے، متنوع اور باہمی طور پر فائدہ مند سٹریٹجک شراکت داری میں تبدیل کیا جائے۔‘
واضح رہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کی دعوت پر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف تین روزہ سرکاری دورے پر جمعرات کو سعودی عرب پہنچے تھے۔
یہ ان کا 11 اپریل کو وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’یہ حقیقت کہ میں اپنے پہلے بیرون ملک دورے پر مملکت سعودی عرب آیا ہوں، یہ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات کو اہمیت دیتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک اب اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو فروغ دینے پر خصوصی توجہ کے ساتھ دوطرفہ تعاون کے نئے اور غیر روایتی شعبوں کی تلاش پر کام کر رہے ہیں۔
روس اور یوکرین کے تنازع پر جس کے حوالے سے پوری دنیا کو تشویش ہے، وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور امید ہے کہ جلد ہی ماسکو اور کیئف کے درمیان امن مزاکرات کا پھر سے آغاز ہو جائے گا۔
’تنازعات سفارت کاری کی ناکامی کی عکاسی کرتے ہیں۔ دشمنی کے فوری خاتمے، پائیدار مذاکرات اور مسلسل سفارت کاری کی ضرورت ہے۔‘

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’دونوں ممالک کا خاص رشتہ سات دہائیوں سے ہے۔‘ (فوٹو: پی ایم آفس)

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’متعلقہ کثیر الجہتی معاہدوں، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعات کے مطابق سفارتی حل ناگزیر ہے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے والی اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں کے دوران غیرجانبدار رہا تھا۔
جبکہ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’وہ متاثرہ علاقوں میں شہریوں کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کی تمام کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔‘
’اسلام آباد نے یوکرین کے عوام کی امداد کے لیے دو سی-130 طیارے بھیجے تھے، اور یکجہتی کے اظہار کے لیے مزید امدادی سامان بھی بھیجنے کا سوچ رہے ہیں۔‘
’تنازع کسی کے حق میں نہیں ہے خاص کر ترقی پذیر ممالک کے۔‘

شیئر: