Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور: سکھوں کے تحفظ کا مطالبہ، ’ذاتی دشمنی نہیں تھی‘

اقلیتی برادری کے رہنماؤں اور علماء نے حکومت سے اقلیتوں کے تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)
پشاور میں اقلیتی برادریوں کے رہنماؤں اور مختلف مکتبہ فکر کے علما نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دو سکھ دکانداروں کے قتل میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے اور مقتولین کے ورثا کے لیے پیکج کا اعلان کیا جائے۔
پیر کو پشاور پریس کلب میں پریس کانفرس کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے اور جمعیت علماء اسلام کے رکن سردار رنجیت سنگھ نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے سکھ برادری اور دیگر اقلیتوں کے کے افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا میں ایشوز کو اٹھا دیا جاتا ہے لیکن پھر ان پر بات نہیں ہوتی۔
سردار رنجیت سنگھ نے کہا کہ ’اتوار کو سکھ برادری نے احتجاج کیا تھا۔ احتجاج کے دوران میڈیا ورکرز کے ساتھ تھوڑی تلخ کلامی ہوئی تھی جس کی وجہ نوجوانوں کا مشتعل ہونا تھا۔ نوجوان اس لیے مشتعل ہوئے تھے کہ سڑک پر دو تین گھنٹے کھڑے ہونے کے باوجود کوئی بھی حکومتی نمائندہ ان کے پاس نہیں آیا۔‘
اقلیتی برادری کے رہنماؤں اور علماء نے حکومت سے اقلیتوں اور خاص طور پر سکھ برادری کے افراد کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اتوار کو پشاور کے علاقے سربند میں نامعلوم افراد نے فائرنگ سے سکھ برادری کے دو افراد رنجیت سنگھ اور کول جیت سنگھ کو قتل کیا تھا۔
تھانہ سربند کے محرر ارشاد علی کے مطابق اتوار کو سکھ برادری کے دو افراد کے قتل ہونے کی ایف ائی آر  کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) میں درج ہوئی ہے۔

سکھ برادری کے 200 سے لے کر 250 کے قریب خاندان پشاور میں مقیم ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

’کیا معلوم تھا کہ وہ خود دہشت گردی کا شکار ہو جائیں گے‘

رنجیت سنگھ کے بھائی منموہن سنگھ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے بھائی کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی۔
منموہن سنگھ کے مطابق رنجیت سنگھ کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔
’وہ تو کسی سے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرتا تھا، ہمیشہ بھائی چارے اور صبر و تحمل کی تلقین کرتے۔ ان کا زیادہ وقت دکان میں گزرتا۔ ہمیشہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی اور جہاں بھی ہوتے تو خوشیاں بکھیرتے۔‘
رنجیت سنگھ اور کول جیت سنگھ ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ سے تعلق رکھتے تھے تاہم دہشت گردی کی وجہ سے دیگر سکھوں کی طرح پشاور شہر کے علاقے جوگن شاہ منتقل ہوگئے تھے۔
منموہن سنگھ کا کہنا ہے کہ ’ان کو کیا معلوم تھا کہ وہ خود دہشت گردی کا شکار ہو جائیں گے۔‘
ان کے مطابق ’اب رنجیت سنگھ اور کل جیت سنگھ دونوں کے خاندان کا گزارا کافی مشکل ہوگا کیونکہ ان کے بچے اتنے بڑے نہیں کہ کوئی کام کرسکیں۔‘
سماجی کارکن بلبیر سنگھ نے بتایا کہ گزشتہ دس سالوں میں 20 سے زیادہ سکھ برادری کے افراد کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل کیا گیا ہے جس میں زیادہ تر کے قاتلوں کا پتہ نہیں چل سکا اور ان کے کیسز ابھی تک حل نہیں ہوئے ہیں۔
’حکومت وقت کو چاہیے کہ اس واقع میں ملوث افراد کو پکڑ کر سخت سے سخت سزا دی جائے جبکہ اقلیتی کمیونٹی کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔‘
بلبیر سنگھ نے مزید بتایا کہ دہشت گردی کی وجہ سے 250 سے زائد خاندان ضلع خیبر سے پشاور منتقل ہوئے تھے جبکہ 2010 میں ٹارگٹ کلنگ شروع ہونے کی وجہ سے 2012 اور 2013 میں 50 کے قریب خاندان انڈیا اور 2015 سے 2020 تک تقریباً 50 خاندان پنجاب منتقل ہوئے۔

رنجیت سنگھ اور کول جیت سنگھ دہشت گردی کی وجہ سے ضلع خیبر سے جوگن شاہ منتقل ہوگئے تھے۔ (فوٹو: ریسکیو 1122)

سکھ برادری کے 200 سے لے کر 250 کے قریب خاندان پشاور میں مقیم ہیں۔
گزشتہ برس پشاور میں چارسدہ بس سٹینڈ کے قریب نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ایک سکھ حکیم کو قتل کر دیا تھا، بعد ازاں قتل کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی تھی۔
اس سے قبل جنوری 2020 میں شادی کے لیے وطن واپس آنے والے سکھ نوجوان کو پشاور میں قتل کر دیا گیا تھا۔ پشاور پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ پرویندر سنگھ نامی سکھ نوجوان کے قتل میں ان کی منگیتر ملوث تھی۔ 
اسی طرح مئی 2018 میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن چرن جیت سنگھ ٹارگٹ کلنگ کے واقعے میں قتل کر دیے گئے تھے۔
پولیس نے کہا تھا کہ سکھ رہنما چرن جیت سنگھ دکان سے اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کی۔
اپریل 2016 میں بھی خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے مشیر سورن سنگھ کو بھی فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
سورن سنگھ ضلع بونیر پیر بابا میں واقع اپنے گھر جا رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم ملزمان نے ان پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔
سورن سنگھ پر حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔
جگ موہن سنگھ چھ اگست 2014 میں پشاور کے علاقے ہشت نگری کی ایک مارکیٹ میں قتل کیے گئے جبکہ ان کی دکان پر حملے میں بہرام سنگھ اور من میت سنگھ زخمی ہوئے تھے۔
اسی سال تین ستمبر 2014 کو امرجیت سنگھ کو شہیدان بازار میں ان کے دکان کے اندر چاقو سے وار کرکے قتل کر دیا گیا تھا۔
مہندر سنگھ کو آٹھ جنوری 2013 میں ضلع خیبر کے گاؤں تبائی میں ان کی دکان سے اغوا کیا گیا تھا جس کے بعد ان کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔

شیئر: