Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شامیوں کے ساتھ یوکرینیوں جیسا سلوک ہی کیا گیا، یورپی یونین

ملین کی تعداد میں شامی باشندے جرمنی میں داخل ہوئے جہاں ان کا خیرمقدم کیا گیا۔ فوٹو ٹوئٹر
یورپی شہری تحفظ اور انسانی امداد کے آپریشنز کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل مائیکل کوہلر نے دعویٰ کیا ہے کہ شامیوں کا خیرمقدم یوکرینیوں کی طرح ہی کیا گیا اور ویسا ہی سلوک کیا گیا جب کہ بشار الاسد حکومت کے جرائم کو ہرگز فراموش نہیں کیا جائے گا۔
عرب نیوز کے ساتھ فرینکلی سپیکنگ پروگرام میں سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ یورپی یونین مہاجرین کے درمیان امتیازی سلوک روا رکھتی ہے۔

سیاستدانوں کے انفرادی بیانات کو یورپی یونین کی پالیسی نہیں سمجھنا چاہیے۔ فوٹو عرب نیوز

مائیکل کوہلر نے فلسطینیوں کی انسانی ضروریات کی حمایت کے لیے یورپ کے عزم کا اعادہ بھی کیا اور کہا کہ یورپی یونین کی امداد میں کسی بھی قسم کی کٹوتی کا تعلق صرف ترقیاتی امداد کے لیے مالیاتی منتقلی کی حد تک ہے۔
کوہلر نے اس بات کی بھی تردید کی ہے کہ روس اور مشرق وسطیٰ سے جنگ کی وجہ سے اپنے ملک سے فرار ہونے والے یوکرینیوں کے ساتھ یورپ کے سلوک نے نسل پرستی، دوہرے معیار اور منافقت کو ظاہر کیا ہے۔
انہوں نے عرب نیوز کے  پروگرام فرینکلی سپیکنگ میں انٹرویو دیتے ہوئے میزبان کیٹی جینسن کو بتایا کہ جو فرق میں دیکھ رہا ہوں وہ  صرف اتنا ہے کہ یوکرین سے آنے والے پناہ گزینوں کو یورپی وزرائے داخلہ کے فیصلے کی بنیاد پر فوری طور پر ورک پرمٹ دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی سلوک دوسرے مہاجرین سے مختلف یا کم نہیں۔
کوہلر نے دیگرمسائل پر بھی بات کی ہے جن میں بے گھر یوکرینیوں کا مستقبل کیا ہے اور آیا یورپی یونین انسانی امداد کا خلا  پورا کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ کے بحرانی علاقوں سے فنڈز اکٹھا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

شامیوں کا خیرمقدم اور ان سے سلوک یوکرینیوں کی طرح ہی کیا گیا۔ فوٹو ٹوئٹر

یورپی یونین کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ 2015 اور 2016 میں شامیوں اورعراقیوں کی آمد پر نظر ڈالنے کی بھی ضرورت ہے،ان ممالک سے آنے والے مہاجرین کی نسبتاً زیادہ تعداد یورپ میں داخل ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا بتایا کہ ملین کی تعداد میں شامی باشندے جرمنی  میں داخل ہوئے ہیں جن کا وہاں خیرمقدم کیا گیا ہے۔
اس خیرمقدم کا یوکرین کے مہاجرین سے اب موازنہ کرنا بالکل مناسب نہیں کیونکہ یوکرین کے باشندوں کو بحران میں دو مہینے گزر ے ہیں جب کہ دوسرے پناہ گزینوں کی صورت حال کے ساتھ جو  برسہا برس سے یورپ میں ہیں اور ان کے یہاں رہنے سے  کچھ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
انہوں نے ایسی مثالوں کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں میزبان آبادی کی جانب سے پناہ گزینوں کا  گرمجوشی سے استقبال ہوا ہے جس نے ان مسائل کو جنم دیا ہے اور یہ مسائل بعض اوقات عوامی ردعمل کے باعث  ہی پیدا ہوتے ہیں۔
مائیکل کوہلر نے بلغاریہ کے وزیراعظم کریل پیٹکوف کے تبصروں پر افسوس کا اظہار کیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ وہ  پناہ گزین نہیں جن کے ہم عادی ہیں، یہ لوگ یورپی، ذہین اور پڑھے لکھے ہیں۔

فرق صرف اتنا ہے کہ یوکرینیوں کو فوری ورک پرمٹ دیے گئے ہیں۔ فوٹو ٹوئٹر

انہوں نے استفہامیہ انداز میں کہا  کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ممالک کو یہ حق حاصل ہےکہ وہ  نسل، مذہب یا سیاست کی بنیاد پر پناہ گزینوں کا انتخاب کریں۔
نہیں، بالکل نہیں، بالکل بھی نہیں یہ یقیناً معمول کی بات ہے اور اگر آپ کسی ایسے ملک کے پڑوسی ہیں جو یوکرین جیسی صورت حال سے دوچار ہے تو یقیناً ایسی مدد ایک بڑا جذبہ ہے۔
یورپی سیاستدانوں کے غیر حساس تبصروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کوہلر نے کہا کہ ہمیں  ایسے سیاستدان کے انفرادی بیانات کو یورپی ممبر ممالک اور یورپی یونین کی پالیسی لائن کے طور پر نہیں لینا چاہیے۔
سیاست دان اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پناہ گزینوں کے استقبال کے طریقے، انہیں ملنے والی حمایت وغیرہ کو طے کرنے کے قانونی طریقوں کو تبدیل کر دیا جائے۔

شیئر: