Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جانوروں سے پھیلنے والا ’منکی پاکس‘ وائرس کیا ہے اور کیسے پھیلتا ہے؟

امریکہ اور یورپ کے محکمہ صحت حکام نے حالیہ دنوں میں متعدد افراد خصوصاً نوجوانوں میں ایک ایسے نایاب وائرس کی تشخیص کی ہے جس کے نشانات صرف کبھی افریقی ممالک میں نظر آتے ہیں اور اسے ’منکی پاکس‘ وائرس کہتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق دنیا بھر میں ماہرین صحت اس وائرس پر نظر رکھے ہوئے ہیں کیونکہ تاریخ میں پہلی بار یہ وائرس افریقی ممالک سے نکل کر دنیا بھر میں پھیلتا ہوا معلوم ہو رہا ہے اور اس کی تشخیص ایسے افراد میں بھی ہو رہی ہے جو کبھی افریقی ممالک گئے ہی نہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس وائرس سے کسی بڑی آبادی کو نقصان پہنچنے کا فی الحال امکان موجود نہیں۔
منکی پاکس وائرس کیا ہے؟
منکی پاکس ایک ایسا وائرس ہے جو جنگلی جانوروں خصوصاً زمین کھودنے والے چوہوں اور لنگوروں میں پایا جاتا ہے اور اکثر ان سے انسانوں کو بھی لگ جاتا ہے۔ اس وائرس کے زیادہ تر کیسز ماضی میں افریقہ کے وسطی اور مشرقی ممالک میں پائے جاتے تھے جہاں یہ بہت تیزی سے پھیلتا تھا۔
پہلی مرتبہ اس بیماری کی شناخت 1958 میں اس وقت ہوئی تھی جب ایک تحقیق کے دوران کچھ سائنسدانوں کو بندروں کے جسم پر ’پاکس‘ یعنی دانے نظر آئے تھے۔ اسی لیے اس بیماری کا نام ’منکی پاکس‘ رکھ دیا گیا تھا۔
انسانوں میں اس وائرس کے پہلے کیس کی شناخت 1970 میں افریقی ملک کانگو میں ایک 9 سالہ بچے میں ہوئی تھی۔
منکی پاکس کی نشانیاں کیا ہیں اور اس کا علاج کیسے ہوتا ہے؟
منکی پاکس کا شکار لوگوں کو اکثر بخار، جسم میں درد، سردی لگنے اور تھکن کی شکایات رہتی ہیں۔ اس وائرس سے زیادہ بیمار ہو جانے والوں لوگوں کو اکثر شدید خارش بھی محسوس ہوتی ہے اور جسم کے مختلف حصوں پر دانے نکل آتے ہیں۔
اگر یہ بیماری کسی کو لگ جائے تو اس کے اثرات پانچ سے تین ہفتوں میں نظر آتے ہیں اور عام طور پر اس سے متاثرہ افراد دو سے چار ہفتوں کے درمیان بغیر ہسپتال منتقل ہوئے صحتیاب ہوجاتے ہیں۔
منکی پاکس کے بارے میں ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ یہ وائرس 10 میں سے ایک فرد کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے اور یہ بچوں پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔
اس بیماری سے متاثر ہونے والوں کو اکثر ’سمال پاکس‘ یا ’چکن پاکس‘ کے خلاف کام کرنے والی ادویات دی جاتی ہیں۔ جبکہ اس بیماری سے بچاؤ اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ویکسین بھی بنائی جا رہی ہے۔
جمعرات کو اپنے ایک بیان میں یورپین سینٹر فار ڈیزیز پریوینشن اینڈ کنٹرول نے دنیا بھر کے ماہرین کو یہ مشورہ دیا کہ منکی پاکس سے متاثرہ افراد کو آئسولیشن میں رکھا جائے اور زیادہ متاثرہ افراد کو ’سمال پاکس‘ کی ادویات دی جائیں۔

یہ وائرس بچوں پر زیادہ اثرانداز ہوتا ہے۔ (تصویر: اے ایف پی)

ایک سال میں منکی پاکس کے کتنے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں؟
عالمی ادارہ صحت کے مطابق تقریباً ایک درجن افریقی ممالک میں اس وائرس کے ہزاروں کیسز ہر سال رپورٹ ہوتے ہیں اور ان میں سے تقریباً 6000 کا کانگو اور 3000 کا تعلق نائیجیریا سے ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ممالک میں مانیٹرنگ کے درست نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے اکثر منکی وائرس کے متعدد کیسز نظر انداز ہوجاتے ہیں۔
اس وائرس کے کچھ کیسز ماضی میں افریقہ کے باہر امریکہ اور برطانیہ میں بھی پائے گئے ہیں اور ان کیسز کی تشخیص ان افراد میں ہوتی تھی جو افریقی ممالک کا سفر کرتے تھے اور یا ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے جانوروں سے رابطے میں آئے ہوں۔
2003 میں چھ امریکی ریاستوں میں منکی وائرس کے 47 کیسز رپورٹ ہوئے تھے اور انہیں یہ وائرس ان کتوں سے لگا تھا جنہیں گھانا سے لائے گئے جانوروں کے ساتھ باندھا گیا تھا۔
اس بار منکی پاکس کے کیسز میں کیا خاص بات ہے؟
ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ یہ بیماری ان افراد کو بھی لگتی ہوئی نظر آ رہی جنہوں نے کبھی افریقہ کا سفر نہیں کیا۔ یورپ میں یہ کیسز برطانیہ، اٹلی، پرتگال، سپین اور سویڈن میں پائے گئے ہیں۔
برطانوی ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی کے مطابق ان سارے کیسوں کا آپس میں تعلق نہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ان افراد کو یہ وائرس علیحدہ علیحدہ جگہوں پر لگا ہے۔
پرتگال میں ان کیسز کی تشخیص ایک ہسپتال میں ہوئی تھی جہاں جنسی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔ بدھ کے روز امریکہ میں منکی پاکس سے ایک شخص متاثر ہوا تھا جس نے ابھی حال ہی میں کینیڈا کا دورہ کیا تھا۔

منکی پاکس کے زیادہ تر کیسز ماضی میں افریقہ کے وسطی اور مشرقی ممالک میں پائے جاتے تھے۔ ( تصویر: اے ایف پی)

کیا منکی پاکس جسنی تعلقات سے پھیلتا ہے؟
ماہرین کے مطابق ایسا ممکن ہے لیکن اس حوالے سے کوئی واضح جواب دینا ممکن نہیں۔ ان کے مطابق اس سے پہلے یہ کیس جنسی تعلقات کی وجہ سے پھیلتا ہوا نظر نہیں آیا لیکن یہ وائرس متاثرہ افراد سے قریبی تعلق میں آنے سے پھیلنے کا خدشہ برقرار ہے۔
امپیریل کالج لندن میں وبائی امراض کے ماہر برطانوی ڈاکٹر مائیکل سکندر کا کہنا ہے کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ برطانوی مردوں کو یہ وائرس کہاں سے لگا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنسی تعلقات کے دوران لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں اور اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے تعلق سے اس بیماری کا خطرہ موجود ہے۔

شیئر: