Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یاسین ملک ضمیر کے قیدی‘، ان کے خلاف انڈین ہتھکنڈا مسترد کرتے ہیں: پاکستان

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دنیا انڈین حکومت کی جانب سے سیاسی قیدیوں کے ساتھ کیے جانے والی بدسلوکی کا نوٹس لے۔
شہباز شریف نے پیر کو اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ممتاز کشمیری رہنما یاسین ملک کو دہشت گردی کے جعلی مقدمات میں سزا سنانا تنقیدی آوازوں کو خاموش کرنے کے مترادف ہے اور یہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔‘
مودی سرکار سے اس پر جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔‘
واضح رہے کہ یاسین ملک کے خلاف دہشت گردی، ملک دشمنی اور غیرقانونی سرگرمیوں کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ یاسین ملک نے اس مقدمے میں کسی بھی وکیل کی مدد لینے سے انکار کرد یا تھا۔ اب 25 مئی کی سماعت میں انڈین عدالت یاسین ملک کی سزا کا تعین کرے گی۔
یاسین ملک کو اپریل 2019 میں انڈیا کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے نے) دو برس پرانے ’دہشت گردی اورر علیحدگی پسندی کے لیے فنڈنگ‘ کے ایک کیس میں گرفتار کر لیا تھا ۔ وہ اس قبل مارچ سے ہی پپلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید تھے۔
علاوہ ازیں ان پر 1990 میں چار انڈین ائیر فورس کے افسران کو قتل کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے جس میں ان کے ساتھ سات دیگر افراد کو بھی نامزد کیا گیا۔ 1995 میں اس کیس میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے سٹے آرڈر جاری کیا تھا جسے اپریل 2019 میں اسی عدالت نے ختم کر دیا تھا۔
یاسین ملک پر ایک الزام یہ بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے 1989 میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کی بیٹی ربیعہ سعید کو اغوا کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔

’یہ کشمیریوں کو جھکانے کی ناکام کوشش ہے‘

پاکستان کے وزیراعظم ہاؤس کے ٹوئٹر سے پیر کو جاری بیان کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہ ’بے مثال بہادری و حریت کی علامت اور ضمیر کے قیدی یاسین ملک کے خلاف بھارتی ہتھکنڈہ مسترد کرتے ہیں ، یہ کشمیریوں کو جھکانے کی ناکام کوشش ہے۔‘
’ عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کونسل ماورائے قانون وانصاف اور انتقام پر مبنی بھارتی اقدام کا نوٹس لے۔ حکومت پاکستان عالمی و انسانی حقوق کے تمام اداروں اور اوآئی سی کے فورم پر یاسین ملک اور کشمیری قیادت کے خلاف انتقامی کارروائیوں کو پوری قوت سے اٹھائے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت کے سیاہ قوانین اور عدالتی نظام عدل کے عالمی وفطری تقاضوں کے منافی ہے۔‘

یاسین ملک کون ہیں؟

یاسین ملک انڈین زیرانتظام کشمیر کے معروف آزادی پسند لیڈر اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ( جے کے ایل ایف) کے چیئرمین ہیں۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پاکستان اور انڈیا کے درمیان منقسم ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی اور وحدت کی علمبردار ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ایک زائد دھڑے انڈیا اور پاکستان کے زیرانتطام کشمیر کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی سرگرم ہیں۔
یاسین ملک اپنے نوجوانی کے دور سے ہی آزادی پسند سیاست میں سرگرم ہو گئے تھے۔ انہیں کئی بار قید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ نوے کی دہائی کے وسط تک یاسین ملک کی جماعت انڈیا کے خلاف مسلح کاررائیوں کو درست سمجھتی تھی تاہم 1994 میں اس جماعت نے عدم تشدد پر مبنی سیاسی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔ بعد ازاں یاسین ملک نے انڈین زیرانتظام کشمیر میں ایک دستخطی مہم بھی چلائی تھی۔ 
پاکستان میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب انڈیا کی واجپائی سرکار سے کشمیر کے معاملے پر بات چیت کا اغاز ہوا تو یاسین ملک دیگر کشمیری حریت رہنماؤں کے ساتھ پاکستان کے دورے پر بھی آئے تھے اور ان کا پاکستان کے  زیرانتظام کشمیر میں بھرپور استقبال کیا گیا تھا۔

عمران خان صاحب دھرنا دو دن آگے کر دیں: مشعال ملک

خیال رہے کہ اتوار کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ 25 مئی کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کے ساتھ پہنچیں گے۔
یاسین کی اسلام آباد میں مقیم اہلیہ مشعال ملک نے اپنی بیٹی رضیہ سلطانہ کے ہمراہ اتوار کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’25 مئی کو میرے شوہر کے خلاف پھانسی کا آرڈر آئے گا یا ان کے خلاف عمر قید کی سزا آئے گی۔ یاسین ملک صرف کشمیر کا نہیں بلکہ اس پورے خطے کی آزادی کی علامت ہے۔‘
’آٹھ سال ہو گئے میں نے اپنے شوہر کو نہیں دیکھا۔ اس کی بیوی اور بیٹی تڑپ رہی ہے۔ اس نے کشمیری قوم کی آزادی کا علم اٹھایا ہوا ہے۔‘

یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک اپنی بیٹی رضیہ سلطانہ کے ساتھ اسلام آباد میں مقیم ہیں (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں عمران خان صاحب سے اپیل کرتی ہوں۔ عمران خان صاحب! آپ کو یاسین کے دوست تھے۔ یہ دن (25 مئی کا لانگ مارچ) آپ ایک دو دن آگے کر دیں گے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مجھے پتا ہے کہ داخلی سیاست اہم ہوتی ہے لیکن کشمیر زیادہ اہم ہے۔‘
’میرے شوہر کو شہید نہ ہونے دیں۔ میں کہتی ہوں کہ لوگ کفن باندھ کر نکلیں۔ یاسین ملک کے لیے، کشمیر کی آزادی کے لیے نکلیں۔ آپ لوگ اپنی سیاست دو دن بعد کر لیں۔‘
خیال رہے کہ انڈین حکومت نے تین برس قبل 5 اگست 2019 کو اپنے زیرانتطام کشمیر کی خصوصی حیثیت کا آئینی ترمیم کے ذریعے خاتمہ کر کے اسے انڈیا کی یونین ٹیریٹری قرار دے دیا تھا۔ 
انڈین حکومت کے اس فیصلے سے قبل ہی مکنہ عوامی ردعمل کے پیش نظر انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
پاکستان کی جانب سے انڈین حکومت کے اس فیصلے کو یک طرفہ قرار دیا گیا تھا اور موقف اپنایا گیا کہ انڈیا کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی اور ریاست جموں کشمیر کی متنازع حیثیت کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ 

شیئر: